پلوامہ (جموں و کشمیر) :قدرتی حسن سے مالا مال ترال علاقے کو جنوبی کشمیر میں ایک خاص اور منفرد مقام حاصل ہے، تاہم کشمیر کے نامساعد حالات کے دوران یہ علاقہ ترقی کی رفتار سے دور رہا اور یہی وجہ ہے کہ علاقہ قدرتی طور خوبصورت ہونے کے باوجود پسماندگی کی داستان ازخود بیان کر رہا ہے۔ ترال علاقے میں جہاں گزشتہ تین برسوں کے دوران اہم شاہراہوں کی تعمیر و تجدید اور میکڈمایزیشن کے بعد عوامی شکایات کا حجم کم ہوگیا، تاہم اس کے باوجود ترال سے پہلگام تک کی سڑک براستہ بگمڈ بٹ نور کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے سے مقامی لوگوں میں مایوسی پائی جا رہی ہے۔
حسین پہاڑیوں کے بیچ سے ہو کر گزر رہا یہ راستہ تعمیر ہونے سے جہاں امرناتھ یاتریوں کے علاوہ سیاحوں کو سرینگر سے پہلگام تک کم مسافت طے کرنی پڑے گی وہی اس سے ترال علاقے میں تعمیر نو کے نئے باب کھل جائیں گے، لیکن بدقسمتی سے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں اس بڑے پروجیکٹ کا ذکر کرنے کے باوجود زمینی سطح پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے جس کی وجہ سے عوامی حلقے نالاں نظر آرہے ہیں۔
ایک مقامی شہری، شبیر احمد خان، کا ماننا ہے کہ اس سڑک کی تعمیر کے بارے میں گزشتہ دس برسوں کے دوران کئی بار خبریں سامنے آتی رہیں لیکن بدقسمتی سے زمینی سطح پر پیش رفت نہیں ہوئی، حالانکہ اس سڑک کی تعمیر سے علاقے میں اقتصادی ترقی کی رفتار پکڑتی مگر اس حوالہ سے کوئی بھی پیش رفت نہیں کی جا رہی ہے۔ علاقے کے معروف سماجی کارکن، فاروق ترالی، نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’ترال - پہلگام سڑک کی تعمیر یہاں کے لوگوں کی ایک دیرینہ مانگ ہے اور حال ہی میں ممبر پارلیمنٹ حسنین مسعودی نے بگمڈ پہلگام سڑک کا جائزہ لیا اور بعد ازاں اے ڈی سی ترال نے بھی وہاں کا دورہ کیا جس کی وجہ سے عوامی سطح پر یہ مسئلہ ایک بار پھر موضوع بحث بنا ہوا ہے، تاہم ہماری اطلاعات کے مطابق ابھی تک اس بارے میں پروجیکٹ کی منظوری کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں۔‘‘