اس موقع پر معروف شاعر و صحافی شمیم طارق،قیصر خالد (آی پی ایس ،آی جی ممبئی) اور آنند کمار نے اپنے خیالات ذریعے فراق کی ادبی صلاحیتوں پر روشنی ڈالی۔
معروف نقاد و شاعر شمیم طارق نے فراق کے فکر و فن کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ فراق کی انفرادیت کو تمام اہم نقادوں نے قبول کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ فراق اب بھی تشنہء جواب ہے وہ کو ن سے محاسن ہیں جو انھیں دوسرے شاعروں سے ممتاز کرتے ہیں حسن اور عشق دونوں کو عظمت انسان کے اعتراف کا حاصل ہونا یہ شعر ثابت کرتا ہے۔
حاصل حسن بس یہی ہے
آدمی آدمی کو پہچانے
شمیم طارق نے مزید کہا کہ فراق کی یہ خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے شاعری یا غزل کی کی لفظیات کا دائرہ وسیع کیا ہے. اور اس میں بھارت کی روح بھر دی ہے، فراق نے اپنے عہد کی رات کو میر کے عہد کی رات سے ملانے کی کوشش کی ہے اور وہ کہیں کہیں کامیاب بھی ہوے ہیں۔
قیصر خالد نے اپنی بات مقالے کے ذریعے پیش کی اور جس میں فراق کی غزلوں و نظموں اور رباعی کا حوالہ ان کے اشعار کے ذریعے دیا گیا۔
انھوں نے فراق کی شاعری کو فطری شاعری بتایا اور کہا کہ ان کے یہاں صرف واردات عشق ہی نہیں بلکہ زندگی کی تلخیاں اور سچائیاں بھی موجود ہیں وہ اپنے اشعار کے ذریعے زندگی کی سچائیوں کو روشناس کراتے نظر آتے ہیں۔
اردو کارواں کے صدر فرید خان نے کہا کہ فراق گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار تھے وہ گنگا جمنی تہذیب جو ہمارے ملک کی پہچان ہے، انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اسی تہذیب کی آبیاری کی. ہندی اور اردو زبان پر بیک وقت عبور حاصل ہونے کے سبب انھوں نے نہ صرف دونوں زبانوں کی نزاکت کو سمجھا بلکہ دونوں زبان کی نزاکت و لطافت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنی شاعری میں سمویا اور آج کے ہندوستان میں اسی تہذیب کی اسی میل جول کی سخت ضرورت اور وقت کا تقاضہ ہے۔