ممبئی: ونچت بہوجن اگھاڑی نے آج توہین رسالت کے خلاف جس مظاہرے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد انہیں یہ احتجاج منسوخ کرنا پڑا۔ اس کے پیچھے کی دو بڑی وجوہات رہیں۔ سب سے اہم یہ کہ اس مظاہرے کو لیکر ممبئی پولیس کی جانب سے اجازت نہیں ملی، جب کہ مسلم دانشوروں نے اس مظاہرے کی مسلسل مخالفت کی، جس کے سبب جمعہ کی نماز کے بعد لوگ پرامن طریقے سے اپنے گھر چلے گئے۔ اس طرح سے ونچت بہوجن اگھاڑی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ Vanchit Bahujan Aghadi
ونچت بہوجن اگھاڑی نے احتجاج کے لیے ممبٔی کے مدنپورہ علاقے انتخاب کیا تھا اور کہا تھا کہ یہاں سے پیدل مارچ کرتے ہوئے آزاد میدان کا رخ کریں گے، چونکہ یہاں سے آزاد میدان کا فاصلہ پانچ کلومیٹر تک ہے۔ اس راستے میں مسلم بستیاں، مساجد اور بازاریں آباد ہیں۔
ونچت بہوجن اگھاڑی کا یہ پلان تھا کہ توہین رسالت کی پشت پناہی میں مسلمانوں کو متحد کرنے کی بات کہہ کر وہ آنے والے انتخابات میں مسلم ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کر لیں گے، لیکن مسلم عوام نے سمجھداری دکھاتے ہوئے دانشوروں اور اکابرین کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا اور اس مظاہرے سے خود کو الگ کر لیا۔ چونکہ ممبئی میں اب تک جو بھی مظاہرے ہوئے ہیں، وہ پرامن طریقے سے ہوئے جب کہ ممبئی کے علاوہ دوسرے شہروں میں جو بھی مظاہرے ہوئے، ان مظارے میں مسلمانوں کو کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس میں جانی اور مالی دونوں نقصان ہوئے تھے۔ ممبئی یا مہارشٹر کے مسلمانوں نے ایسے مظاہروں سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی جن میں تشدد یا پھر سیاسی پارٹیوں کے فائدہ اٹھانے کا امکان تھا۔