ممبئی: عروس البلاد ممبئی کے پڑوسی شہر بھیونڈی میں سابق اسپیشل آئی جی اور آئی پی ایس( سبکدوش) عبدالرحمن کی کتاب ایبسینت ان پالیٹکس اینڈ پاور،پالیٹیکل ایکسولیشن آف انڈین مسلمس ( سیاست اور اقتدار سے مسلمانوں کی غیر حاضری اور سیاست سے باہر ہونا) پر تبادلہ خیال کے لیے منعقدہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن سجاد نعمانی نے کہاکہ ملک میں ان کی موجودہ صورتحال کے لیے صرف اور صرف مسلمان ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ مسلمانوں کے رہنماؤں اور علمائے کرام نے سیاسی شعور پیدا نہیں کیا ہے۔مسلمان کے دماغ میں انہیں اقلیت بنادیا گیا ہے،جبکہ ہندوؤں کو سیاسی طور پر بنادیا گیاہے۔مولانا سجاد نعمانی نے مستقبل کو تابناک قرار دیا ،کانگریس کے بعض لیڈر اور راہل گاندھی اوبی سی اورذات پات کی باتیں کررہے ہیں۔دراصل۔پیدل۔یاترا نکلا کر زمینی حقائق کو جان لیا۔ انہوں نے کہاکہ عبدالرحمن زمینی۔لیڈر بن سکتے ہیں، سیاست سڑک،جیلوں،پولیس اسٹیشن،عدالتوں،دھرنے اور بھوک ہڑتال میں ہوتی ہے۔ لائحہ عمل تیار کیا جائیگا۔ اس کے لیے انہوں نے جمعیتہ علماء ہندکو نشانہ بنایا اور کہاکہ آزادی کے بعد بلاشرط کانگریس سے اتحاد اور ضم کرلیا جس کی مخالف مولاناابو المحاذمحسن سجادنے دیا۔
انہوں نے کہاکہ جمعیتہ علماء نے ان کی تجویز کو تسلیم نہیں کیا۔مولانا نے بہار میں مسلم۔انڈیپینڈنٹ پارٹی کی تشکیل دے کرتجربہ کیا۔اسمبلی بیرسٹر عمری کی قیادت میں دوسرا مقام حاصل کیا تھا۔ مسلم او بی سی تحریک کے رہنماء شبیر احمد انصاری نے کتاب میں مسلمانوں کے حالات پر جوبحث کی گئی وہ قابل ستائش ہے،انہوں نے اوبی سی تحریک کے بارے میں تفصیل پیش کی اور کہاکہ 1980 سے جاری تحریک سے مسلمانوں کو تعلیمی،سیاسی اور سماجی سطح پر فائدہ پہنچایا ہے۔اس لیے میں انہوں نے1994 میں جاری جی آرکا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہاکہ اسی اوبی سی کی وجہ سے حفیظ دھتورے جیسے سائیکل سوار کو ایم ایل اے بنانے میں مدد حاصل ہوئی ہے۔جدوجہد جاری ہے۔اس کے لیے اتحاد کی ضرورت ہے۔مغربی مہاراشٹر میں اوبی سی تحریک سرگرم ہیں۔جوکچھ کتاب میں لکھا گیا ،وہ۔ہم نے گلی محلوں میں گھوم کر انصاف دلایا ہے۔اور انصاف دلانا۔ اس موقع پرسابق اسپیشل آئی جی اور آئی پی ایس عبدالرحمن نے کہاکہ ملک میں سیاسی طاقت کے فقدان کی وجہ سے مسلمان پسماندگی کاشکار ہوئے ہیں،ان کا استحصال سب سے پہلےسیاسی سطح پر ہوا اور پھر الیکشن کمیشن اور سرکاری ایجنسیوں نے کیا اور اس سب کے لیے سیاسی پارٹیوں زمہ دار ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کا استحصال کیا،حالانکہ ہندوستان میں جمہوریت بچانے میں اقلیتی فرقے کا اہم ترین رول رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کے ساتھ ایک سازش کے تحت انہیں اقتدار اور سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی اس کے لیے نہ صرف سیاسی پارٹیاں،انتظامیہ کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن بھی ذمہ دارہے۔
عبدالرحمن نے مشہور دانشور جاوید عالم کے خیالات سے اتفاق کیا کہ مسلمانوں نے ملک کی جمہوریت کوبچایا ہے۔مسلمان اورپسماندہ افراد نے اس طرف توجہ دی۔اس لیے چاہئیے،جبکہ اس کے برعکس امیربھی جمہوریت اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا۔ہے۔ تاکہ اسے ترقی ملے۔ عبد الرحمن نے اقوام متحدہ کے حوالے سے کہاکہ ہر ایک ملک میں اقلیت کو سیاست میں حصہ داری ملی چاہئیے۔ عبدالرحمن نے مزید کہاکہ جغرافیائی پرویزن بھی بہت اچھا نہیں ہے اور اعدادوشمارتو بہت خراب ہیں،یہی حال پسماندہ طبقات کا بھی ہے۔ملک ہی نہیں بلکہ مختلف ریاستوں میں نمائندگی نہیں دی گئی۔مسلمانوں کو نہ نمائندگی ملی اور نہ ہی وزارت دی گئی ہے ۔انہوں نے مہاراشٹر کے اعدادوشمار پیش کیے اور کہاکہ 1952 سے یہی سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیاسی جماعتوں نے حق ادا نہیں کیا ہے اور اس کے لیے کانگریس اور این سی پی سب سے زیادہ قصوروار ہیں جبکہ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن نے پوری کردی ہے۔مسلمان اکثریتی حلقوں کو مخصوص کردیا جاتا ہے۔جبکہ ملک کی انٹلیجنس ایجنسی اور ادارے بھی سرگرم رہے ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا،کیونکہ 76 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس لیے سر جوڑ کر بیٹھنے کے لیے ہمیں آگے آنا ہے ورنہ مزید دیر ہو جائے گی۔