مالیگاؤں: ریاست مہاراشٹر کے صنعتی شہر مالیگاؤں میں 21 سال قبل 26 اکتوبر 2001 کو نماز جمعہ کے بعد جامع مسجد گُڑ بازار میں یورپی ممالک بالخصوص امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا پمفلٹ تقسیم کئے جانے پر مسجد کے قریب تعینات پولیس ایس آر پی کے ذریعہ پمفلٹ کی ضبطی کے بعد اچانک فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا تھا۔ اس بھیانک فرقہ وارانہ فساد کو 21 برس مکمل ہوگئے ہیں لیکن اس فساد میں اقلیتوں کی املاک کو چن چن کر نقصان پہنچانے والے افراد ابھی قانون کے شکنجے میں نہیں آئے ہیں۔ Malegaon Communal Riots
مالیگاؤں فرقہ وارانہ فساد اس تعلق سے سینئر صحافی عبدالحلیم صدیقی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'اس بھیانک و بدترین فرقہ وارانہ فساد میں پولیس کی گولیوں سے 13 معصوم جانیں تلف ہوئی تھیں جبکہ قلب شہر کہلانے والی اہم شاہراہوں اور مسلم اکثریتی علاقوں میں سینکڑوں دکانوں اور مکانوں کو نذرآتش کردیا گیا۔ وہیں غیر مسلم علاقوں میں واقع مسلمانوں کے مکانوں میں فسادیوں نے لوٹ مار اور مار پیٹ کرنے کے بعد گھروں کو آگ کے حوالے کردیا تھا۔ متعدد علاقوں میں مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کی بے حرمتی بھی کی گئی اور سارا شہر جلنے لگا تھا۔
عبدالحلیم صدیقی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ 'میڈیا کے غلط کردار اور غیر ذمہ دارانہ طریقے سے دیکھتے ہی دیکھتے فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ ناسک ضلع کے ہر تعلقہ میں پھیل گئی۔ جس کے سبب لاکھوں کروڑوں کی عوامی املاک فساد کی نذر ہوگئی۔ شرپسندوں نے ایک اندازے کے مطابق 100 کروڑ سے زائد کا نقصان کر ڈالا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ 'مذکورہ فساد کے الزامات میں گرفتاریاں بھی ہوئیں اور پاٹل کمیشن نامی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جو اس فساد کی تفتیش کررہی تھی اور کمیٹی نے اپنی رپورٹ بھی حکومت کو سونپی تھی لیکن چند برس قبل مہاراشٹر اسمبلی میں آتشزدگی کے واقعہ میں اس کمیٹی کی رپورٹ جل کر خاک ہوگئی جس کے باعث ملزمین و قصور وار آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔
مالیگاؤں فرقہ وارانہ فساد کے متاثرین سے جمیعت العماء کی ملاقات فساد متاثرین میں سے ایک اعلی تعلیم یافتہ نوجوان محمد ابراہیم مختار انقلابی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ '26 اکتوبر 2001 کے فرقہ وارانہ فساد میں پولیس کی گولی لگنے سے ان کا ایک ہاتھ ضائع ہوگیا۔ جب ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تب وہ صرف 16 برس کے تھے۔ اور علاج کے بعد دفعہ 307 کے تحت انہیں پولیس کی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ حالانکہ ضمانت پر رہائی کے بعد 2005 میں عدالت نے انہیں باعزت بری کرنے کا فیصلہ سنایا دیا۔ ابراہیم مختار انقلابی نے مزید کہا کہ 'وہ ہر سال 26 اکتوبر کو مقامی افسران سے لیکر اعلی سطح کے افسران تک اور اس کے علاوہ وزیراعلی و دیگر عہدیداروں کو ایک مطالباتی مکتوب بذریعہ ای میل روانہ کرتے ہے کہ پاٹل کمیشن کی رپورٹ کو دوبارہ منظرعام پر لایا جائے تاکہ اصل ملزمین و قصور واروں پر کارروائی ہو اور انہیں سخت سزائیں دی جائے۔
واضح رہے کہ اس دوران مسلم نمائندوں نے متاثرین کو حکومتی امداد بھی دلانے کی کوشش کی لیکن حکومت کی جانب سے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر معاوضہ دیا گیا۔ اس دوران جمعیت العلماء مالیگاؤں، جمعیت العلماء مہاراشٹر اور جمعیت العلماء ہند (ارشد مدنی) سمیت مسلمانوں کی متعدد سرکردہ سماجی، ملی اور مذہبی تنظیموں کی جانب سے فساد متاثرین میں ریلیف کا کام کئی مہینوں جاری رہا۔ حکومت کی جانب سے اس فساد کی تحقیقات کے لیے پاٹل کمیشن کی تقرری عمل میں آئی۔
شہر کے سیاسی رہنماؤں اور سابق رکن اسمبلی مرحوم نہال احمد، مفتی اسماعیل اور اُس وقت کے ایم ایل اے شیخ رشید سمیت دیگر سیاسی و سماجی سرکردہ شخصیات کے بیانات اور چشم دید لوگوں کے بیانات کمیشن میں قلمبند کروائے۔ جب تک پاٹل کمیشن کی سماعتی کاروائی جاری رہی اس دوران مالیگاؤں فساد کے الزام میں گرفتار لوگوں کو ضمانت پر رہائی کا سلسلہ جاری رہا اور ایک وقت آیا کہ تمام ملزمین ضمانت پر رہا ہوچکے تھے اور پھر برسوں بعد پاٹل کمیشن نے اپنی رپورٹ اس وقت کی کانگریس حکومت کے سپرد کی تھی۔ آج بھی مالیگاؤں کے عوام اور فساد متاثرین اس کے منتظر ہے کہ موجودہ حکومت اس پر نظرثانی کرے گی اور انہیں انصاف ملے گا۔