مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی 105 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے سب سےبڑی پارٹی بن کر ابھری تھی جبکہ شیوسینا 56 نشستوں پر قبضہ کر کے دوسری بڑی پارٹی بنی ہے۔
سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ حکومت سازی پر ابھی تک مطلع صاف نہ ہونے پر شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے 22 نومبر کو اپنے ارکان اسمبلی کی میٹنگ طلب کی ہے، جبکہ دہلی میں کانگریس صدر سونیا گاندھی کی رہائش گاہ پر بھی این سی پی اور کانگریس کی میٹنگ ہونی ہے جس میں این سی پی کی جانب سے شرد پوار، اجیت پوار اور پرفل پٹیل ہوں گے جبکہ کانگریس کی جانب سے احمد پٹیل، ملکارجن کھڑگے، پرتھوی راج چوہان اور اشوک چوہان شریک ہوں گے۔
حالاںکہ اس سے قبل بھی سونیا گاندھی اور شرد پوار کی میٹنگ ہو چکی ہے لیکن میٹنگ کے بعد شرد پوار نے میڈیا سے کہا تھا کہ ان کے اور سونیا گاندھی کے درمیان مہاراشٹر میں حکومت سازی پر کسی بھی قسم کی بات نہیں ہوئی ہے۔
حالاںکہ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران شیوسینا کے ترجمان اور راجیہ سبھا کے رکن سنجے راؤت نے میڈیا کے بات کرتے ہوئے کہا کہ مہاراشٹر میں شیوسینا ہی حکومت بنائے گی لیکن انہوں نے یہ بات واضح نہیں کی کہ وہ کس پارٹی کے ساتھ اقتدار تک پہنچے گی کیوں کہ ان کی پارٹی کے پاس 170 ارکان اسمبلی ہیں۔
جبکہ گزشتہ روز سابق وزیراعلی دیویندر فڑنویس اور مہاراشٹر بی جے پی کے صدر چندر کانت پاٹل نے کہا تھا کہ ریاست میں حکومت بنانے کے لیے بی جے پی کے پاس مطلوبہ ارکان اسمبلی کی تعداد ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ بی جے پی اور شیوسینا ان دونوں کے پاس حکومت سازی کے لیے مطلوبہ ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے تو یہ دونوں پارٹیاں کیوں حکومت تشکیل نہیں دے رہی ہیں۔
واضح رہے کہ مہاراشٹر اسمبلی میں 288 نشستیں ہیں اور حکومت سازی کے لیے 144 ارکان اسمبلی چاہیے۔
بی جے پی اور شیوسینا نے متحدہ طور پر اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن نتائج کے بعد ان کے مابین وزیراعلی کی کرسی کے لیے رسہ کشی شروع ہوئی اور ان کا اتحاد ٹوٹ گیا جس کے بعد شیوسینا نے این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مل کر ریاست میں حکومت کی تشکیل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
چوںکہ بی جے پی نے سب سے زیادہ نشستوں پر قبضہ کیا تھا لیکن اس کے پاس حکومت سازی کے لیے مطلوبہ ارکان اسمبلی کی تعداد نہیں تھی جبکہ شیوسینا نے شرط رکھی کہ اگر بی جے پی چاہتی ہے کہ وہ شیوسینا کے ساتھ مل کر حکومت بنائے تو اقتدار میں 50 فیصدی حصے داری دینی ہوگی یعنی ڈھائی برس شیوسینا کا اور ڈھائی برس بی جے پی کا وزیراعلی ہوگا، لیکن بی جے پی نے شیوسینا کی اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور ان دونوں کے درمیان اتحاد ٹوٹ گیا جو انتخابات سے قبل ہوا تھا۔
بی جے پی سے اتحاد ٹوٹنے کے بعد شیوسینا نے دعوی کیا کہ وہ این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی لیکن این سی پی نے بھی مشروط طور پر شیوسینا کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔
این سی پی نے شرط رکھی کہ اگر شیوسینا چاہتی ہے کہ این سی پی اسمبلی میں اس کی حمایت کرے تو اسے مرکز کی این ڈی اے حکومت سے بھی علیحیدگی اختیار کرنی ہوگی۔
این سی پی کی شرط مجوزہ شرط کو شیوسینا نے قبول بھی کرلیا اور اس نے اپنے مرکزی وزیر اروند ساونت سے استعفی بھی دلوا دیا لیکن اب بھی حکومت کی تشکیل نا ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔
شیوسینا نے این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا دعوی تو کر دیا ہے لیکن این سی پی اور کانگریس کی جانب سے کسی بھی طرح کا فیصلہ نہیں کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے معاملہ لیت و لعل میں پڑ گیا ہے۔
اس بارے میں کانگریس اور این سی پی کے درمیان میٹنگ بھی ہوچکی ہے لیکن اس میٹنگ میں کیا باتیں ہوئیں یہ کسی کو بھی نہیں معلوم جبکہ شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے بھی اپنے ارکان اسمبلی کی میٹنگ طلب کی ہے۔
مہاراشٹر کی سیاست کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔