ترقی پسند سوچ کی روایت کو کولہا پور نے ہمیشہ زندہ رکھا ہے اور یہ اسی باعث سُرخیوں میں بھی رہا ہے۔ مجاور اور یادو فیملی نے بھی اس روایت کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
دراصل معاملہ کچھ یوں ہے کہ مجاور فیملی کی لڑکی کی شادی یادو فیملی کے لڑکے سے ہوئی۔ یعنی لڑکی مسلم اور لڑکا غیر مسلم۔ موجودہ حالات میں اس طرح کی شادی کسی خطرے کو دعوت دینے سے کم نہیں ہے لیکن انہوں نے کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہی کیا جو محبت کرنے والے جوڑے کو پسند آیا جس کی چہار جانب ستائش بھی کی جا رہی ہے۔
ان دو خاندانوں نے ذات پات اور مذہب کی دیواروں کو توڑتے ہوئے اپنے بچوں کی الگ الگ مذاہب کی شادی کا جشن خوب جم کر منایا۔ پہلے اسلامی طریقے سے نکاح کی تقریب منعقد ہوئی اور اس کے بعد پھولوں کا ہار پہنا کر (یعنی ور مالا ڈال کر) ہندو رواج کے مطابق یہ جوڑا ایک دوجے کا ہوگیا۔
راج شری ساہو مہاراج کے نظریات پر عمل کرتے ہوئے ان خاندانوں نے ہندو اور مسلم دونوں رسمیں ایک ہی منڈپ میں نبھا کر شادی کی تقریب منعقد کی۔
دراصل مجاور اور یادو فیملی کے درمیان کئی برسوں سے دوستانہ مراسم ہیں اور اسی خاندانی دوستی کے ذریعے لڑکا ستیہ جیت سنجے یادو اور لڑکی مارشا ندیم مجاور کی ملاقات اور دوستی ہوئی اور بعد میں یہ دوستی پیار میں تبدیل ہوگئی۔ دولہا ستیہ جیت اور دلہن مارشا گزشتہ 10 برسوں سے دوست ہیں۔
ستیہ جیت اور مارشا جب ایک دوجے کی محبت میں گرفتار ہوئے اس وقت انہیں اس بات کا یقین نہیں تھا کہ مستقبل میں وہ شادی کر پائیں گے یا نہیں لیکن ان کے اہلخانہ نے ان کے اس ڈر کو دور کر دیا۔ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ ستیہ جیت پیشے سے سِوِل انجینئر اور مارشا آرکیٹیکٹ ہے۔
چونکہ دونوں ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں اپنے اہل خانہ کو اس کے بارے میں بتانے کا فیصلہ کیا۔