بہت سارے لوگ خواب دیکھتے ہیں لیکن کم ہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے سرکرداں رہتے ہیں، اپنے خوابوں کی تعبیر پانے والوں میں ایک ہیں سیدہ سلویٰ فاطمہ، جنہوں نے بچپن میں پائلٹ بننے کا خواب دیکھا تھا،لیکن غربت نے بلی کی طرح اس کا راستہ روکنا چاہا،کیونکہ والد ایک بیکری میں ملازم تھے اور معاشی تنگی بہت زیادہ تھی لیکن دس سال کی محنت کے بعد آخر کار باحجاب ایک کمرشل پائلٹ بن گئی ہے اور اپنی کامیاب شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں۔
سیدہ سلویٰ فاطمہ کا کہنا ہے کہ انہیں بچپن ہی سے پائلٹ بننے کا شوق تھا لیکن ساتویں جماعت سے انکے عینک چہرے پر لگی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ این ڈی اے کا امتحان نہیں دے سکتی تھی، انہوں کہا بہت کم لوگوں کو کمرشل پائلٹ کے بارے میں اس وقت پتا تھا، کیونکہ مسلم سماج میں زیادہ تر ڈاکٹر اور انجینئر بننے کو ہی لوگ ترجیح دیتے ہیں، اور دوسرے پروفیشنل کورسیز کے تئیں رجحان نہیں پایا جاتا ہے،انہوں نے کہا کہ مجھے ایک سال یہ پتہ کرنے میں لگ گیا یہ کس طرح یہ کورس کیا جاتا ہے، ایک پائلٹ بننے کے لئے کئی سارے امتحانات دینے پڑتے ہیں، یہ سارے ہی امتحانات بہت ہی مشکل ہوتے ہیں لیکن ناممکن کچھ بھی نہیں، 2013 میں می نے سی پی ایل کا امتحان پاس کرنے کے بعد میری شادی ہوگی۔
Syeda Salva Fatima : حوصلوں سے اڑان بھرنے والی باحجاب پائلٹ سیدہ سلوی فاطمہ
سیدہ سلویٰ فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ جب آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھیں تو ان کی معاشی حالت بہت اچھی تھی، کیونکہ ان کے والد سعودی عرب میں ایک بیکری میں سیلز مینیجر کے طورپر کام کرتے تھے لیکن اسی وقت وہ سعوری عرب میں ایک حادثہ کا شکار ہوگئے۔
سیدہ سلویٰ فاطمہ کا کہنا ہے کہ عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے ایک رپورٹر میرے گھر آئے اور انہوں نے میرا انٹرویو لیا جس کے بعد میرا پائلٹ بننے کا کی راہ ہموار ہوئی، تلنگانہ کے وزیراعلی نے 35 لاکھ روپے کی ایک اسکالرشپ مجھے دی، تاکہ میں اپنی ادھوری پڑھائی مکمل کرسکوں جب میں بحرین سے اپنی ٹریننگ کر کے واپس ہندوستان آئی تو اس وقت ایئرلائنز میں جگہ خالی موجود تھی اس وقت میں نے امتحان اور انٹرویو دیا جس کے بعد میرا سلیکشن ایئرلائنز میں ہوگیا۔
سیدہ سلویٰ فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ جب آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھیں تو ان کے معاشی حالت بہت اچھے تھے کیونکہ ان کے والد سعودی عرب میں ایک بیکری میں سیلز مینیجر کے طورپر کام کرتے تھے لیکن اسی وقت وہ سعوری عرب میں ایک حادثہ کا شکار ہوگئے، جس کے بعد وہ ہندوستان واپس آگئے، اس وقت گھر کے حالات بہت خراب تھے ، جس اسکول میں میں سلویٰ فاطمہ اپنی تعلیم حاصل کر رہی تھی اس اسکول کی فیس بھی ادا کرنے سے قاصر تھیں، جب یہ ساری بات اسکول کی صدر معلمہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے سلویٰ فاطمہ سے کہا کہ آپ آگے کی تعلیم بھی اسی اسکول میں مکمل کریں گی، دسویں کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد سلویٰ فاطمہ نے سوچا کہ اسی اسکول میں انہیں اسکالرشپ مل جائے گی آگے کی تعلیم وہاں سے ہی کریں گی، سلویٰ فاطمہ نے ٹیلینٹ سرچ امتحان میں حصہ لیا اور اس امتحان میں کامیابی حاصل کی جس کے بعد انہوں نے ایک ایک کالج میں 50 فیصد رعایت کی ساتھ داخلہ لے لیا۔
کالج میں پہلا سال تو خیر خوبی سے نکل گیا، لیکن دوسرے سال معاشی تنگ دستی کا سامنا تھا، کیونکہ دوسرے سال والد کے ہاتھ کا آپریشن ہونا تھا، جس کے بعد سلویٰ فاطمہ فیس ادانہ کرنے والے بچوں کی قطار میں کھڑی تھیں، اسی دوران وہاں سے کالج کی ایک ٹیچر سنگیتا میڈم جا رہی تھی، نہ ہی سلویٰ فاطمہ اس ٹیچر کو پہچانتی تھی اور وہ ٹیچر بھی سلویٰ فاطمہ کو نہیں پہچانتی تھیں، لیکن وہ ایک فرشتے کی طرح آئیں اور سلویٰ کی پریشانی پوچھی اور بعد میں سلویٰ فاطمہ کی سال دوم کی فیس بھردی۔
بچپن میں کئی سارے بچوں کا خواب ہوتا ہے کہ وہ ڈاکٹر انجینئر بنے آپ کا کیا خواب تھا؟
سلویٰ فاطمہ کا کہنا ہے کہ آٹھویں جماعتسے پتا نہیں تھا کہ مستقبل میں اسے کیا بننا ہے؟ لیکن اسکول کی چھٹیوں کے دوران جب وہ اپنی نانی کے گھر گئیں تو وہاں پر ایک اخبار پڑھ رہی تھی اور اس میں دیکھا کہ پورے ملک میں صرف تین ہی خواتین پائلٹ ہیں، جب اس پورے آرٹیکل کو پڑھا تو اس نے دیکھا کہ ایک بھی مسلم خاتون پائلٹ نہیں ہیں اسی کے بعد سے یہ ذہن میں اس بات کی جستجو تھی کہ میں کیوں نہیں پائلٹ بن سکتی اسی حوصلہ کے ساتھ سلویٰ فاطمہ آگے بڑھتی گئی۔
مسلم خواتین کے لیے پائلٹ بننا کتنا مشکل؟
سلویٰ فاطمہ کا کہنا ہے کہ ان کے والدین کا ان پر بہت زیادہ اعتماد تھا معاشی تنگی ہونے کے بعد بھی سلویٰ فاطمہ کو کبھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ پائلٹ نہیں بن سکتی ہے یا ایسے کیوں خواب دیکھ رہی ہوں، جس کی تعبیر نہیں ہو سکتی یہ الفاظ کبھی نہیں تھے سلویٰ فاطمہ کی ماں کہتی تھی اگر تم کوئی چیز کا ارادہ کرو تو اس میں پختگی رکھو اللہ تعالی تمہاری قدرتی طور پر مدد کریگا۔
سلویٰ فاطمہ نے بچوں کے والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ بچے جو بھی فیلڈ میں جانا چاہتے ہیں انہیں اس فیلڈ میں جانے دیں، اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ اقلیتی طبقات کے بچے ڈاکٹر اور انجینئر کی فیلڈ میں ڈالا جاتا ہے لیکن بچوں کی مرضی کے مطابق انہیں مختلف شعبوں میں جہاں انھیں کام کرنا ہے وہاں پر جانے دینا چاہیے۔
پائلٹ بننے کے لیے طویل عرصہ تو لگا ہوگا اس عرصے میں کئی ساری مشکلات بھی آئی ہوگی۔
پائلٹ بنتے وقت ہر تین مہینے میں تحریری امتحان ہوتے ہیں اور ایک سال میں چار مرتبہ امتحان ہوتے ہیں، لیکن تین پیپروں میں پاس ہونا بہت ہی مشکل ہوتا ہے لیکن میں نے اپنے گھر میں ہی رہ کر امتحان کی تیاری کی اور اسے پاس کیا، بعض وقت کئی سارے بچے دہلی جا کر امتحان کی تیاری کرتے ہیں لیکن میں لڑکی ہونے کی وجہ سے اور گھر کا ماحول اس طرح ہونے کی وجہ سے دہلی نہیں جا سکتی تھی اسی لیے گھر میں ره کر تیاری کی اور امتحان میں کامیابی حاصل کی اس کے بعد سوچا کہ امریکہ میں جا کر آگے کی ٹریننگ حاصل کرلوں لیکن والدہ کا من نہیں تھا جس کے بعد حیدرآباد میں رہ کر ہی میں نے اپنی ٹریننگ شروع کی۔
ان دنوں حجاب میں کئی ساری مشکلات مسلم لڑکیوں کو ہو رہی ہے تو کیا آپ کو بھی ہوئی ہے
میں جس کمپنی میں کام کرتی ہوں وہاں پر کسی بھی قسم کی پابندی نہیں ہے، اور وہ انسان کے کام کو دیکھتے ہیں نہ کے اس کے پہناوے کو، رمضان کے مہینہ میں کھجور دیتے ہیں، ساتھ ہی جب ایئرپورٹ پر جاتے ہیں تو اس وقت بہت سی آئی ایس ایف والے بھی دیکھتے ہیں اور کئی سارے لوگ کہتے ہیں کہ اتنا اعلی مقام حاصل کرنے کے بعد بھی مذہب تعلیمات کو پورا کر رہے ہو۔
سیدہ سلویٰ فاطمہ کا کہنا ہے کہ انہیں کمرشل پائلٹ بننے کے لئے تقریبا دس سال تک محنت کرنی پڑی ہیں، ان دس سالوں میں کئ ساری مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے وہ پائلٹ کی ٹریننگ کے لیے بحرین اور نیوزی لینڈ میں بھی کچھ مہینے رہی ہیں وہاں پر بھی انہیں کافی مشکلات ہوئی ہے لیکن مشکلات کے بعد آج انہیں راحت مل چکی ہے اور یہ ساری کامیابی والدین اور سسرال کے ساتھ ساتھ شوہر کی بھی رہی ہے سلویٰ کا کہنا ہے کہ فیملی کے سپورٹ کے بغیر ایک لڑکی کچھ نہیں کر پا سکتی ہے کیوں کہ اس فیلڈ میں آپ کو جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط رہنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھیں:First Muslim Girl Fighter Pilot ثانیہ مرزا ملک کی پہلی مسلم خاتون فائٹر پائلٹ منتخب