جنوبی ممبئی میں مجگاوں علاقہ میں ڈاکیارڈ روڈ اسٹیشن اور مجگاوں مسجد کے قریب واقع پٹھان چال کی دوسری منزل پر تعمیر ایک مکان میں رہائش پذیر عمررسیدہ اور ان کی اہلیہ اختری واگلے اپنے لخت جگر 16سالہ شاہنواز کو بھلا نہیں پائے ہیں، بلکہ مجگاوں کے پٹھان چال کمپاونڈ کا ہر ایک مکین ان دردناک منظر کو یاد کرکے آبدیدہ ہوجاتا ہے،جب شاہنواز کوپولیس نے گولی ماردی تھی۔اور سری کرشنا کمیشن رپورٹ میں جسٹس سری کرشنا نے اپنے ریمارکس میں" اسے کولڈ بلڈیڈمرڈر"قرار دیا اور کہاکہ 11 ویں جماعت سائنس کے طالب علم کو پولیس نے دن دھاڑے بے دردی سےقتل کردیا۔حکومت کو اس ضمن میں دروغ گوئی اور جانبداری کرنے والے پولیس آفیسرز اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنا چاہئیے۔"لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تین عشرے کے بعد بھی انہیں انصاف نہیں ملا۔طاہر واگلے نے بڑے جذباتی انداز میں کہاکہ بوڑھی والدہ اختری اب تک کھوئی کھوئی رہتی ہے۔Tahir Wagle is still waiting for justice
ان کا کہنا ہے کہ عرضہ دراز بیت جانے کے بعد بعد بھی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی میں کوئی بھرپائی نہیں ہوئی ہے اور ہمارا کتنا بڑا نقصان ہوا ہے،لیکن قصورواروں کو تاحال کوئی سزا نہیں ہوئی ہے ،جوکہ ایک افسوسناک امر ہے ۔شاہنواز ایچ ایس سی کرنے کے بعد بحری جہاز پر ملازمت کرتا اور اس سلسلہ میں کئی مرحلہ سے گزر چکا تھا،لیکن وہ نا انصافی کا شکار بن گیا۔
طاہر واگلے نے کہا کہ وہ ناامید ہوچکے ہیں ،کیوں کہ ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے،پھر بھی ایک آس ہے کہ قصوروار پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئیے تو انہیں انصاف ملے گا۔
ویسے بابری مسجد کی شہادت کے بعد شہر میں پھوٹ پڑے فسادکی تحقیقات کرنے والے سری کرشنا کے سربراہ جسٹس بی این سری کرشنا نےخیال ظاہر کیا کہ 10 جنوری 1993 کو پولس نے دن دہاڑے ایک نوجوان کو قتل کر دیا تھا جو ایک سنگین ترین معاملہ ہے۔کمیشن۔کے مطابق پولس صبح اابجے کے درمیان پٹھان چال میں آئی تھی اور مسلمانوں کے مکانات میں زبر دستی داخل ہونے کے دوران ایک مکین طاہر واگلے کے مکان میں داخل ہو گئی اوران کی بیوی اور بیٹی یاسمین کو رائفل سے دھمکایا اور ان کے 11 سالہ بیٹے شاہ نواز کو سڑک پر کھیلتے وقت زبردستی لے گئی اوراس کو زدو کوب کرنے کے بعد ایک کا نسٹبل نے پیچھے سے اسے گولی مار دی تھی اور لاش کو پولس کی وین میں ڈال کر لے گئے ۔ یاسمین اور اس کی ماں سڑک کے اس مقام پر آئے تو وہاں خون پڑا تھا۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ یاسمین طاہرحسن واگلے ایک ذہین تعلیم یافتہ لڑکی ہے جس نے کمیشن کے سامنے گواہی دی ہے۔ اس کی گواہی ایک دکھ بھری داستان ہے۔ جس سے کمیشن انکار نہیں کر سکتا ہے۔ یاسمین کی گواہی ریکار ڈ کرنے کے بعد کمیشن نے پولس کمشنر کو حکم دیاکہ اس المناک واقعہ کی تحقیقات کروائی جائے۔ پولس کمشنر نے ڈپٹی پولس کمشنر زون چہارم سریندر کمار کو تحقیقات کی ہدایت دی۔ سریندر کمار نے جانچ کے بعد کمیشن کے سامنے ایک رپورٹ پیش کی ۔ کمیشن کے سامنے جو شہادتیں پیش کی گئی ہیں، ان سے کمیشن اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ پولس نے شاہنواز کو دن دہاڑے قتل کر دیا تھا جب کہ ڈی سی پی نے اس معاملے کی تحقیقات میں پولس کو صاف ستھرا پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ یاسمین اور دوسرے گواہوں نے اس معاملے میں پولس میں شکایت درج نہیں کرائی تھی۔ کمیشن نے انکوائری کے ریکارڈ یا اس کے طریقہ کار کا مکمل جائزہ لیا ہے۔
کمیشن نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ کمیشن اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہے کہ پولس نائیک نمبر ۹۲۱۷ منوہر پندھر ناتھ گہر ولے کے ۲۴۔ جون ۱۹۹۴ کو ریکارڈ کئے گئے بیان کو پیش کرنا چاہتا ہے۔ پولس نائیک کے مطابق ۱۰۔ جنوری ۱۹۹۳ کو صبح ساڑھے گیارہ بجے سب انسپکٹر پھوترے اور کانسٹبل دیود تار انمی یاد و (17385) بھائیکلہ پولس اسٹیشن ایک میٹاڈور نمبر 4530 BLB میں اور وہ اس وقت موجود تھا۔ شاہنواز طاہرواگلے کا نام درج کیا گیا تھا۔ جس کے ریمارکس کے مطابق وہ گولی سے زخمی ہوا تھا اور 11 جنوری ۱۹۹۳ کو اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔
کمیشن نے ان پولیس اہلکاروں کو دروغ گو قرار دیا ہے۔
کمیشن نے واضح طور پر کہاہے کہ ڈپٹی پولیس کمشنر نے اپنی تحقیقات میں اس بات کا اظہار کیا کہ مسلمان گواہوں کے بیانات اور شہادتوں کو غیر معتبرسمجھا گیا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحقیقات کے دوران انہوں نے اپنے ذہن کو صاف نہیں رکھا تھا اور ایک مسلم نو جوان کے قتل کے معاملے کو چھپانے کی کوشش کی تھی۔
کمیشن کا خیال ہے کہ اس معاملے میں حکومت کو سخت نوٹس لینا چاہیے اور غیر جانبدارانہ طور پر اس کی تحقیق کروائی جائے اور قصور وار افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
مزید پڑھیں:D Company in Mumbai ممبئی کی ناگدیوی اسٹریٹ میں عبدالمتین اب تک انصاف کے منتظر