ناگپور: مہاراشٹر کے ناگپور شہر میں جاری سرمائی اجلاس کے دوران گذشتہ دنوں نائب وزیر اعلی دیویندر فڈنویس نے لو جہاد کے خطرے کو بھانپتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ لو جہاد کے سدباب کے لئے قانون سازی ناگزیر ہے۔ گجرات اور یوپی حکومت کے طرز پر لوجہاد کی 'بیخ کنی' کے لیے اقدامات کیے جائیں گے مگر اس بابت اپنے بے باک بیانوں کے لئے مشہور فڑنویس کابینہ میں شامل اقلیتی امور و اوقاف کے وزیر عبدالستار شیخ کا موقف حکومت کے ارداے سے بالکل الگ ہے۔ لفظ لو جہاد کی اصطلاح کو غلط قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا صرف مسلمان لڑکے ہی ہندو لڑکیوں سے شادی کر رہے ہیں! یہ خبریں بھی عام ہوئی ہیں کہ ہندو نوجوانوں نے مسلم لڑکیوں سے شادیاں کی ہیں۔ Abdul Sattar On Love Jihad
بین المذاہب شادیوں کا معاملہ صرف ہندو۔ مسلم تک محدود نہیں ملک کہ دیگر طبقات میں بھی یہ چلن موجود ہے پھر نہ جانے کیوں اسے صرف ہندواورمسلمان کی عینک سے دیکھا جاتا ہے یہ فکر اور روش غلط ہے جو لوگ لفظ جہاد کے اصل معنی سے نا آشنا ہیں وہی یہ سب کھٹراگ پھیلاتے ہیں! چاہے کوئی وزیر ہی کیوں نہ ہواس معاملہ میں سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہاں دھرم کو شامل کرنا پھر ہاہا کار مچانا ایک بے وقت کی راگنی ہے اور شخصی آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔اگر اس بابت کوئی قانون بنانے کی بات ہوتی ہے تو پھر شخصی آزادی قانون کا کیا ہوگا،یعنی آئین میں ترمیم ناگزیر ہو جائے گی جو سر دست ممکن نہیں!
ریاست کے مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں 5 فی صد ریزرویشن کی خاموش حمایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کمیشن اور کمیٹیوں نے مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی سفارش ان کی کمزور اقتصادی صورت حال کے پیش نظر ہی کی ہے مگر افسوس کے اس کا نفاذ عمل میں نہیں آیا یہ حقیقت ہے کہ یہ ریزرویشن دینے کے لئے موجود ریزرویشن سے حصہ داری کرنا ہوگی اور سوال یہ ہے کہ اپنا حصہ کون اور کیونکر کم کرے گا!ضروری یہ ہے اس بابت سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے اور اس پورے معاملہ کو مکمل وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے تب جا کر بات بن سکتی ہے۔ہمیں عدالت عظمیٰ کو یہ بتانا ہوگا کہ ہم تعلیمی اور اقتصادی طور پر کس قدر پچھڑے ہوئے ہیں اور ریزرویشن ہماری سماجی ترقی کے لئے کس قدر ضروری ہے۔یہ بھی بتانا ہوگا ہمیں تعلیمی میدان میں اسی حوالے سے ہائی کورٹ نے 5,فی صد ریزرویشن دینے کی ہدایت کی تھی۔