اس تعلق سے اردو اکیڈمی کی سکریٹری نصرت مہدی نے بتایا کہ ' یہ محفل جشن عید کے موقع پر سجائی گئی ہے- اور آج بھارت کی تاریخ میں پہلی بار چار بیت کو خواتین پیش کر رہی ہیں- اس کے لیے ایم پی اردو اکیڈمی میں چار بیت کے لیے ان خواتین کو ورکشاپ لے کر تیار کیا ہے'-
ڈاکٹر نصرت مہدی نے چار بیت فن کے تعلق سے بتایا کہ ' یہ فن ایک طرح سے روایتی گیتوں کی طرح ہے- لیکن یہ فن دھیرے دھیرے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو اکیڈمی اور علامہ اقبال مرکز ہر برس چار بیت پروگرام کا انعقاد کرتا آ رہا ہے'
انہوں نے مزید کہا کہ اب چار بیت کا روایتی انداز بھی ختم ہو رہا ہے اور اس فن سے منسلک افراد بھی اس سے دور ہوتے جا رہے ہیں- اس لیے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس فن کو زندہ رکھا جائے اور اسے نئی نسل میں منتقل کیا جائے-
نصرت مہدی نے چار بیت کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ 'چار بیت کو چار بیت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں چار مصرعے ہوتے ہیں اور اس کی ابتدا چار سو برس قبل ہوئی تھی اس لیے اسے چار بیت کہتے ہیں- یہ فن افغانستان سے بھوپال تک پہنچا اور بھوپال کے نوابی دور میں فروغ پایا۔ ایک زمانہ تھا جب ہر خاص موقع پر چار بیت پیش کیا جاتا تھا'-
چار بیت کو پہلی بار پیش کرنے والی فنکارہ ایشا نے کہا ' ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے اس فن پر کام کیا۔ ہم نے محنت کی اور اردو بولنا سیکھا جو یقیناً ہمارے لیے خوشی کی بات ہے'۔