بھوپال: ریاست اترپردیش کے ضلع دموہ میں ڈائریکٹریٹ آف پبلک ایجوکیشن نے حجاب نما اسکارف پہننے والی ہندو طلبات کے معاملے میں گنگا جمنا اسکول کی مسلمہ حیثیت یا سرداری منظوری معطل کر دی ہے۔ وزیراعلی شیوراج سنگھ چوہان نے اس معاملے پر سخت اعتراض کیا تھا۔ اسی وقت قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال پرینکا قانونگو نے الزام لگایا کہ اسکول کے ڈائریکٹر حاجی ادریس نے میڈیا کو متاثر کرنے اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے افسوس کا اظہار کیا۔ وہ اسکارف نہیں حجاب تھا۔ گنگا جملہ اسکول کے ڈائریکٹر محمد ادریس جمعہ کی صبح ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ادارے کے بچوں کا ہائی اسکول کا امتحانی نتیجہ شاندار رہا ہے۔ بچوں کو مبارک باد دینے کے لیے فلیکس لگایا گیا۔ کچھ تنظیموں نے اس پر اعتراض درج کرائے ہیں۔اگر اسکول یونیفارم سے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو تو وہ معذرت خواں ہیں۔ وہی حکومت نے اسکول میں پہلے لب پے آتی ہے دعا بن کے تمنا میری پر بین لگا دیا۔
ہاں جس پر ڈائریکٹر نے کہا کہ اب اسکول میں سے جن گن من گایا جائے گا۔ ادارے کے طلباء کے لئے اسکول یونیفارم میں اسکارف رضاکارانہ طور پر رکھا گیا تھا۔ اعتراض آنے پر وہ اسکارف جی ہٹایا جاتا ہے۔ اسکارف کی بجائے دوپٹہ پہن سکتی ہے۔ وہی انہوں نے مزید کہا تھا کہ انکاری کمیٹی کے ساتھ تعاون کریں گے۔ وہی وزیراعلی کے سخت احکام کے بعد اسکول میں ایک بار پھر جانچ کی گئی اور اسکول کی مسلمہ حیثیت معطل کردی گئی۔ جس پر مسلم طبقہ میں ناراضگی دیکھی جا رہی ہے۔
مدھیہ پردیش علماء بورڈ نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور ذمہ دار قاضی سید انس علی نے کہا کہ تعلیم حاصل کرنا ہر ہندوستانی کا حق ہے اور کوئی بھی حکومت ہوئی وہ اس کا حق نہیں چھین سکتی کیونکہ آئین نے ہمیں یہ سارے حقوق دیے ہیں۔ انہوں نے کہا پہلے ریاست کے مدارس کو ٹارگٹ کیا گیا۔ اور اب یہ اسکول، انہوں نے کہا گنگا جمنا اسکول میں جو بچے اچھے نمبروں سے پاس ہوئے اور اسکول نے بغیر بھید بھاؤ کے سبھی طلبات کا فوٹو پوسٹر لگائے گئے۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسکول کے ذریعہ ہندو مسلمان جیسا کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔رہی بات اسکارف کی اس سے نہ تو طلبات کو اعتراض تھا اور نہ ہی ان کے والدین کو انہوں نے کہا اگر کوئی بھی مذہب کی خاتون اگر اسکارف پہنا چاہے تو آپ اس پر پابندی نہیں لگا سکتے۔