اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور دفعہ 35 اے کو بھارتی آئین سے منسوخ کردیا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے اس فیصلے کے تقریباً نو ماہ ہونے پر، لداخ کی گلوان وادی میں چینی مداخلت کی اطلاعات موصول ہونا شروع ہوئیں۔ ان اطلاعات نے جہاں 1999 کی کارگل جنگ کی یاد تازہ کی وہیں اس نئی مداخلت کے اثرات نئی قائم کردہ یونین ٹریٹری لداخ اور یو ٹی جموں و کشمیر پڑنا صاف نظر آئے۔ لوگ ابھی خصوصی حیثیت کی تنسیخ کے نتیجے میں عائد بندشیں اور مواصلاتی لاک ڈاؤن سے نکل ہی رہے تھے کہ ایک نئی غیر یقینی صورتحال پورے خطے پر منڈلانے لگی۔
سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے منسوخی کے بعد، جموں و کشمیر اور لداخ کے دو یو ٹی بنانے کے اعلان، اور کووڈ وبا کے درمیان کس طرح چینی مداخلت نے خطے پر اثرات مرتب کئے ہیں انکا خاکہ ہم پیش کر رہے ہیں۔
چین اور اگست 5 کا فیصلہ
پاکستان میں چینی سفارتکار نے سفارتی حلقوں میں اس وقت ہلچل مچا دی جب انہوں نے لداخ میں بھارت - چین کشیدگی کو دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ منسلک کیا۔
وانگ شینفنگ (Wang Xianfeng) چینی سفارت خانے میں پریس آفسر ہیں۔ انہوں نے 11 جون کو اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ 'بھارت کی جانب سے کشمیر کے اسٹیٹس کیو (جوں کی توں حالت) کو تبدیل کرنے کے یکطرفہ اقدام اور خطے میں کشیدگی کو فروغ دینے کی وجہ سے چین اور پاکستان کے لیے نئے چیلینجز کھڑے کر دیے ہیں۔ بھارتی اقدامات نے بھارت - پاکستان، بھارت - چین تعلقات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔'
یہ بھی پڑھیں: چین سے بات چیت جاری، معاملہ حل ہوگا اس کی گارنٹی نہیں: راجناتھ سنگھ
جموں و کشمیر پر اثرات
گزشتہ ماہ کشمیر کے علاقے ہندوارہ اور سوپور میں دو مختلف معرکہ آرائی میں چھ سی آر پی ایف اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد آرمی نے کہا کہ خطہ ایک بار پھر تشدد میں اضافہ دیکھے گا۔
خطے میں آرمی کے ایک اعلیٰ آفیسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پر حالات ایسے ہیں کہ وہ خطے میں دراندازی کی ایک نئی لہر پیدا کر سکتی ہے۔ پاکستان اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی فراق میں ہے اور اسی لئے وہ ایل او سی پر کشیدگی بنائے رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قومی سیکیورٹی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے جموں و کشمیر کے حالات پر بُلائی گئی تجزیاتی میٹنگ میں اس بات کی نشاندہی کی تھی۔
نو مئی کو بلائی گئی ایسی ہی ایک میٹنگ میں ڈوبھال نے افواج کو موسم گرما میں کشیدگی کے لئے تیار رہنے کے لئے کہا تھا۔
اگر چہ افواج اور دیگر ایجنسیاں وادی میں دراندازی کی نئی لہر سے نمٹنے کے لئے تیار ہو رہی ہیں، تاہم سیکورٹی ماہرین کے مطابق گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔
دفاعی ماہر جے کمار ورما کے مطابق افواج اور دیگر ایجینسیوں کو کسی بھی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے لیکن جہاں تک اعداد و شمار کا تعلق ہے دراندازی، حد متارکہ امن معاہدہ کی خلاف ورزی یا ہلاکتوں میں پریشان کن اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مطمئن ہیں کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہےـ انہوں نے کہا 'آپ کو بھی مطمئن رہنا چاہیے۔'
ورما کے مطابق فوج نے جو نقصان اٹھایا ہے وہ تمام آپریشن فوج کی طرف سے ہوئے ہیں نہ کہ عسکریت پسندوں کے ذریعہ۔ انہوں نے کہا کہ فوج انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائی کر رہی ہے۔
وادی میں مقیم تجزیہ کار مانتے ہیں کہ ایل اے سی پر کشیدہ حالات، عسکریت پسندی میں اضافہ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں میں ناراضگی، پاکستان کی طرف سے کشمیر پر لگاتار بیان بازی اور لداخ سرحد پر کشیدگی دراصل جموں و کشمیر کی خصوصی حیثییت کی منسوخی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور یہ تمام حالات و واقعات الگ الگ نہیں ہیں۔
کشمیر میں ایک بزرگ سیاستدان نے بتایا کہ بھارت، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تحلیل کرنے کے بعد چین کی جارحانہ سفارتی پوزیشن کو سمجھنے میں غلطی کر گیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی فیصلے نے چین کو کشمیر مسئلہ کا فریق بنا دیا ہے اور اب لداخ کو چین اور کشمیر کو پاکستان ڈیل کر رہا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان اور چین کے آپس میں تعلقات نہایت مضبوط اور سٹریٹجک نوعیت کے ہیں اور دونوں ملکوں نے ٹیکٹکل آپریشنز(tactical operations) بھی شروع کر دیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 'کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ تقریباً ہر روز حد متارکہ پر گولہ باری ہورہی ہے؟ دونوں معاملات کو ملا کر دیکھیے، تصویر خود بہ خود صاف ہوجائے گی۔'
دفاعی ماہرین ان تمام حالات کو چین اور پاکستان کی جانب سے مشترکہ آپریشن نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ملک اپنے اپنے طور سے بدلے حالات کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
دفاعی ماہر ورما کے بقول: 'پاکستان کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ حد متارکہ پر گولہ باری کوئی نئی بات نہیں اور اس میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اگرچہ لداخ ایک سنجیدہ معاملہ ہے لیکن وہ اپنی نوعیت کا الگ مسئلہ ہے۔ لداخ میں چینی دراندازی اور وادی کے حالات کو جوڑنے کا لنک مجھے تو نظر نہیں آرہا۔ لیکن مستقبل میں کیا ہوگا، یہ دیکھنے کی بات ہے۔'
یہ بھی پڑھیں:دفعہ 370 کی منسوخی: 'بھارت کے خلاف پڑوسی ممالک کو نئی وجہ ملی'
وادی کی سیاسی سرگرمیوں میں لیت و لعل
21 مئی کو بی جے پی کے نیشنل جنرل سیکرٹری رام مادھو نے اخبار میں شائع ہوئے ایک مضمون میں لکھا کہ وقت آگیا ہے کہ جموں و کشمیر میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے کیونکہ اگست 5 کے فیصلے نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔
اس کے بعد ہی یہ اطلاعات گردش کرنے لگیں کہ وادی میں ایک ایڈوائزی کاونسل قائم ہوگی جس کی قیادت 'اپنی پارٹی' کے سربراہ الطاف بخاری کریں گے۔ اپنی پارٹی کا قیام دہلی کے ایجنڈے کو وادی میں آگے بڑھانے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ بخاری اور ان کی 24 نفری ٹیم کے ساتھ وزیر اعظم نے اس کاونسل کے بارے میں بات بھی کی اور خبروں کے مطابق اس کاونسل کا اعلان جون کے پہلے ہفتے میں ہونا تھا۔ لیکن اس کے اعلان نہ ہونے کی وجوہات میں عالمی وبا کورونا وائرس مانی جاتی ہے۔
لیکن ماہرین اس کو صرف عالمی وبا کے ساتھ نہیں جوڑتے بلکہ مانتے ہیں کہ وجوہات اور بھی ہوسکتی ہیں۔
سینئر صحافی، بھارت بھوشن کے مطابق کاونسل کے اعلان کے پیچھے صرف وبا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'وبا کے دوران مرکزی حکومت نے نئے ڈومیسائل قانون کو نوٹیفائی کیا، تو آخر اس کاونسل کے حوالے سے تعطل کو وبا کے سر ڈالنا صحیح نہیں ہے۔'
بھوشن مانتے ہیں کہ چین کا لداخ میں اقدام وجوہات میں شامل ہوسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی طرح چین بھی نہیں چاہتا کہ بھارت کشمیر میں کوئی ایسا قدم لے جس کے ذریعے امن و امان کا اشارہ دنیا کو جائے کیونکہ کاونسل کی وجہ سے حالات ٹھیک ہونے کا پیغام دنیا کو جاتا کہ لوگوں کی شرکت حکومت میں ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ چین کی دلچسپی یوٹی لداخ میں ہے اور جموں و کشمیر یوٹی لداخ سے جڑا ہوا ہے۔ مودی حکومت کوئی بھی کشمیر پالیسی بناتے وقت پاکستان کو خاطر میں بھلے ہی نہ لائے لیکن چین ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ چین کی دراندازی پر وہ رد عمل سامنے نہیں آرہا ہے جو ایسی ہی حرکت پر پاکستان کے لئے مرکزی سرکار کا ہوتا ہے۔
انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی 6 اگست کی تقریر کا حوالہ دیا کہ جس میں انہوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور اکسائی چن کو بھی بھارت کا حصہ کہا تھا۔ پھر نومبر 2019 کو یوٹی جموں و کشمیر اور یو ٹی لداخ کے نئے نقشے جاری کیے گئے جس میں ان علاقوں کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔
بھوشن کے مطابق اگرچہ یہ کوئی نئی بات نہ تھی لیکن بدلی ہوئی صورتحال میں ان تمام اقدامات کو بھارتی متکبرانہ رویہ کے طور دیکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: لداخ: حقیقی کنڑول لائن پر فوجی سرگرمیوں میں اضافہ