بیدر: انسانی زندگی کے ہر معاملات میں اسلام کی تعلیمات کو تلاش کرنا ہوگا،ہر نظامِ باطل کے بلمقابل اسلامی نظام کو لاکھڑا کرنے کی ذمہ داری اُمت مسلمہ کی ہے۔ معتدل اور متوازن سوچ فکر اسلام کی نمائیاں عناصر ہیں۔ اعلائے کلمتہ اللہ اور اقامتِ دین انبیائی مشن ہے، اس نصب العین کے لیے جدوجہد کے نتیجہ میں عالمی طور پر انقلاب برپا کرنے کا مشن، اور غلبہ دین کا تصور ہماری آنکھوں سے کبھی بوجھل نہیں ہونا چاہیے۔اسلامی نظام کا مکمل فلسفہ عدل و انصاف کے قیام اورسماج میں فتنے کی سرکوبی میں پنہاں ہے۔ ان خیالات کا اظہار محمد یوسف کنی سکریٹری حلقہ کرناٹک نے جماعت اسلامی ہند،بیدر کے زیر اہتمام کے ایس فنکشن ہال، میلوررنگ روڈ، بیدر میں وابستگانِ جماعتِ اسلامی، ارکان کارکنان و متفقین مردو خواتین، ایس آئی اور جی آئی او و دیگر کیلئے منعقد ایک روزہ تربیتی اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں میں تفریق کوختم فرمایا، اور تمام کے حقوق بیان فرمائے، انسانوں کے درمیان مساوات کا درس دیا،قانون سے کوئی بالاتر نہیں، ہر ایک کا حق سب کے لیے برابررکھا اور کہا کہ اللہ کا حکم سب کے لیے برابر ہے۔ سارے انسان برابر ہیں اور سب سے برابری کاسلوک کرنا چاہیے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا باقی نہیں جہاں آپ ﷺنے مکمل رہنمائی نہ کی ہو، اسلام،قرآن اورنبی ﷺکے تعلیمات سے ہٹ کر کسی اور جگہ تلاش کرنے کا موقع نہیں، صبح سے شام، پیدا ہونے سے لے کر مرتے دم تک جن مسائل وامور سے زندگی میں دوچارہونا پڑے گا ان تمام میں قرآن مجید اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نہ صرف رہنمائی کرتی ہیں بلکہ زندگی کے ہر مرحلے میں آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ آپ کو کس میدان میں کس طرح کام انجام دینا چاہیے؟
موصوف نے مزید کہا کہ خدا شناسی، خود شناسی اور خلق شناسی اسلامی نظام کا مکمل فلسفہ ہے، خدا شناسی دراصل پروردگار پر ایمان لانااور ایمان یقین عمل کے ساتھ اور اپنے رب، مالک اور پروردگار کو پہچان کر زندگی بسر کرنا ہے۔خودشناسی خود کو پہچان لینا ہے کہ میں کون ہوں؟ اپنے مقام اور مرتبے کی پہچان کرنا، ذمہ داری کا احساس اپنے اندر لانا سے ہی جواب دہی کا احساس اپنے اندر پیدا کر دے گا۔ قران مجید انبیاء علیہ السلام کی زندگی اورحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد کا بنیادی عنصر اعلائے کلمتہ اللہ ہے۔ قرآن نے مختلف موقع پرانبیائی مشن دعوت کا تذکرہ کیا، ہر زمانے میں جہاں جہاں نبیوں نے رب کے بندگی اختیار کرنے کے بات کہی، تمام انبیا اور رسولوں نے بنیادی طورپر یہی بات کہی کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں تم میری بات پرعمل کرو، لیکن مشرکین،حکمران،بدکاروں اورظالم و جابر بادشاہوں نے مخالفت کی، نظام باطل کو چلانے والے قانون نے مخالفت کی۔یہ سب کچھ انہوں نے اپنے باطل نظام کو بچانے کے لیے کیا۔ دعوتِ دین کیلئے نوح علیہ السلام نے ایک دو سال کا نہیں ساڑھے نو سو سال تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، قرآن مجید میں مختلف مقامات پر ابراہیم علیہ کی زندگی اور حق کی خاطر آپکی قربانیوں کا تذکرہ ملے گا۔ جس سے ہمیں اس کام کو مسلسل جاری رکھنے کا حوصلہ ملے گا۔
تعلق باللہ اور فکر آخرت بڑھانے کے ذرائع موضوع پر محمد معظم امیر مقامی جماعت اسلامی ہند بیدرنے کہا کہ توحید کا تعلق باللہ کا بنیادی عنصرہے، انسان کا ایمان گھٹتابھی ہے اوربڑھتا بھی ہے اور ایک حالت میں کبھی نہیں رہتا، اس لیے ہم زندگی کے ہر معاملہ میں اللہ کی یاد سے غافل نہ رہیں، تعلق باللہ کو بڑھانے کا بہترین ذریعہ ذکر ہے، قران کی تلاوت بھ یبہترین ذکر میں شامل تو اس طرح ذکر الہی کے ذریعے سے بھی ہم اپنے تعلق کو اللہ سے مضبوطاورگہرا کر سکتے ہیں اور تعلق باللہ کیسب سے بڑیشان اور معراج یہہے کہ بندے کی دوستی، دشمنی، لینا اور دینا،یا روکنا اللہ کیلئے ہی ہو جائے تو یہ تعلق بااللہ کی معراج ہے یعنی اس نے ایمان کو مکمل کر لیا۔ انہوں نے بتایا کہ دعا، توبہ واستغفار، امربالمعروف و نہی عن المنکر، ظلم سے اجتناب، انفاق فی سبیل اللہ، دین پر ثابت قدمی، شکر گذاری، عبادات، اور ذکرِ الہی، یہ ایسے ذرائع ہیں جن سے تعلق باللہ میں فروغ اورفکرِ آخرت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔