بیجاپور: انجمن ڈگری کالج بیجا پور کے شیعہ اُردو کے زیر اہتمام یوم پریم چند کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ اس جلسہ کے مہمان خصوصی ڈاکٹر حامد اشرف پروفیسر وصدر شعبہ اُردو ریسرچ گائیڈ مہاراشٹرا اور گری مہاور ویالیہ اودگیر نے اپنے اظہہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ پریم چند نے اُردو زبان و ادب اور اس کے سرمایہ فکر کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ انہوں نے زندگی اور کائنات کو فکر و نظر کے مروجہ زاویوں سے ہٹ کر ایک نئی سطح سے دیکھا ایک ایسی بلند سطح سے جہاں سے زندگی اور انسانیت کا سمندر کروٹیں لیتا اور ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا تھا۔
وہ پہلے ادیب تھے جن کی نظر حیات انسانیت کے اپنوں میں ان مجبور اور بے بس انسانوں تک پہنچتی تھی۔مزید بتایا کہ منشی پریم چند نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں دیہات کی زندگی اور وہاں کے بسنے والوں کو جس خلوص، دیانت داری اور تعمیری جذبے کے ساتھ پیش کیا اس سے افسانے کے فن کو فقط جلا ہی نہ ملی بلکہ آنے والی نسلوں کی راہیں ہموار ہوئیں۔
اس کے بعد ڈاکٹر سید علیم اللہ حسینی صدر شعبہ اُردو نے اپنے اظہار خیال میں کہا کہ منشی پریم چند آج بھی اپنی لازوال تحریروں میں زندہ ہے اور علم و ادب کے پیاسوں کو سیراب کر رہے ہے۔ ہندی اور اردو ادب کے فروغ میں پریم چند کا کردار نا قابل فراموش ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہندستان کی مشترکہ تہذیبو تمدن ہندو مسلم ایکتا کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔اس کے بعد پروفیسر جاگیردار خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو اور ہندی ادب کی تاریخ میں منشی پریم چند بہت اہم مقام رکھتے ہیں۔ پریم چند کی ابتدائی تحریریں اُردو زبان میں ہی ملتی ہے ،بعد میں انہوں نے ہندی میں لکھا شروع کیا پریم چند نے پہلی مرتبہ ہندستان کی دیہی زندگی کو اس کے صحیح منظر کے ساتھ پیش کیا اور اپنے ادب کا رشتہ راست طور پر عوام سے جوڑا پریم چند نے اپنی تحریروں میں سماج کا آئینہ پیش کیا۔
مزید پڑھیں:پریم چند کے افسانے دور حاضر کے مسائل کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں: اردو ادباء
پریم چند کے افسانوں اور ناولوں کی بنیاد حقیقت پسندی پر مبنی ہوتی ہے۔ ناول ہو یا افسانہ وہ ہمیشہ عوام کی ترجمانی کرتے رہے ان کے کردار حقیقی زندگی لئے ہوئے جیتے جاگتے کردار ہیں۔ اس اجلاس کی نظامت محسنہ جاگیردار، مہمان لکچرر نے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دی۔