بنگلور: سال 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر کرناٹک کی علاقائی پارٹی جنتا دل سیکولر نے بھارتیہ جنتا پارٹی سے اتحاد کیا ہے، کہا جا رہا ہے کہ اس اتحاد سے جے ڈی ایس کو 4 پارلیمانی حلقوں میں سیٹیں ملیں گی۔ دونوں پارٹیوں کے اتحاد سے جے ڈی ایس سے جڑے کئی مسلم لیڈران تشویش میں ہیں اور سوالات اٹھا رہے ہیں کہ جے ڈی ایس کے سربراہ دیوگوڑا نے ہمیشہ سیکولرازم کو اپنی زندگی کا اصول بنائے رکھا، لیکن اب بی جے پی سے اتحاد سے ان کے سیکولرازم کا کیا ہوا؟ جے ڈی ایس کا نظریہ آخر بدل کیسے گیا؟ کیا اقتدار ہی سب کچھ ہے اور بھارتیہ دستور کے اقدار اقتدار کے آگے کچھ نہیں؟
اس سلسلے میں جے ڈی ایس کے ریاستی ترجمان محمد اسد الدین نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں جے ڈی ایس اور اس کی اعلی قیادت کے نظریہ، بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقصد و دونوں کے پارٹیوں کے درمیان ہوئے الائنس پر گہری روشنی ڈالی۔ محمد اسد الدین نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ وہ جے ڈی ایس کیوں چھوڑ رہے ہی۔ انہوں نے اس سوال کا بھی جواب دیا کہ جب مسلمانوں نے نتیش یا جگن کو نہیں چھوڑا جب کہ انہوں نے چند مسائل کے معاملات کے سلسلے میں بی جے پی کا ساتھ دیتے آئے ہیں۔ اس لیے جے ڈی ایس کے بی جے پی کے ساتھ جانے پر پارٹی کے مسلم لیڈران کیوں اسے چھوڑ رہے ہیں۔
غور طلب ہو کہ دیوگوڑا نے کہا تھا کہ اگر کمارسوامی بی جے پی کے ساتھ جاتے ہیں، تو وہ اپنے بیٹے سے دستبردار ہو جائیں گے، لیکن اب انہوں نے خود بی جے پی سے اتحاد کر لیا ہے۔ کمارسوامی نے مزید کہا تھا کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد ایک غلطی تھی، پھر انہوں نے اب اس عمل کو پھر سے دہرایا ہے۔
JDS-BJP alliance جے ڈی ایس اور بی جے پی الائنس کو پارٹی کی مسلم قیادت کیسے دیکھتی ہے؟
آنے والے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر کرناٹک کی علاقائی پارٹی جنتا دل سیکولر نے بھارتیہ جنتا پارٹی سے اتحاد کیا ہے۔ دونوں پارٹیوں کے اتحاد سے جے ڈی ایس سے جڑے کئی مسلم لیڈران سوالات اٹھا رہے ہیں کہ جے ڈی ایس کے سربراہ دیوگوڑا نے ہمیشہ سیکولرازم کو اپنی زندگی کا اصول بنائے رکھا، لیکن اب بی جے پی سے ہی اتحاد کر لیا۔ یہ کون سا سیکولرازم ہے؟ JDS-BJP alliance
Published : Oct 6, 2023, 10:33 AM IST
|Updated : Oct 7, 2023, 2:50 PM IST
- بنگلورو میں اپوزیشن اتحاد کے اجلاس میں 24 پارٹیوں کی شرکت کا اعلان
- سدا رامیا اور ڈی کے شیوکمار کے درمیان وزیر اعلی کی مدت میں سمجھوتے کا امکان
بی جے پی کے مودی اور امیت شاہ نے جے ڈی ایس پر پریوار واد اور بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے آرہے ہیں۔ آج دونوں نے ہاتھ ملایا ہے۔ وہیں دوسری جانب دیوگوڑا اور کمارسوامی نے بی جے پی پر فرقہ پرستی کے الزامات عائد کئے اور اب 2023 کے انتخابات سے قبل اس کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے خلاف کام کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
اس سلسلے میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کا کھیل گویا صرف ایک گیم ہے اور سیاسی اقتدار ہی سب کچھ ہے۔ اس بات کی بھی قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ اگر مسلم قیادت جے ڈی ایس کو چھوڑ دیتی ہیں، تو اس کا رخ پولرائزیشن کی طرف ہوسکتا ہے، جو ریاست کے امن و امان کے لئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ جے ڈی ایس کے بی جے پی کے ساتھ اتحاد سے ناراض چند مسلم لیڈران کانگریس کی طرف رخ کر رہے ہیں اور چند لیڈران سماجی خدمات انجام دینے کا ارادہ رکھ رہے ہیں۔