کالجز میں حجاب تنازع کو اب پوری طرح سے سیاسی بنادیا گیا ہے۔ حالانکہ حجاب کا معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اس کے باوجود ریاست میں سیاسی ہنگامہ جاری ہے۔
آر ایس ایس کی طلبا تنظیم ای بی وی پی پر مبینہ طور پر ریاست کے مختلف کالجز میں پتھراؤ کا الزام ہے۔ اے وی وی پی کے طلبا پر الزام ہے کہ انہوں نے حجاب کرنے والی لڑکیوں کو ہراساں کرنے کوشش کی، لڑکیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا۔' karnataka hijab row
ریاست کی تشویش ناک صورتحال کو دیکھتےہو ئے وزیر اعلیٰ بومائی نے گذشتہ دنوں 3 دنوں تک کے لیے اسکولوں و کالجز کو چھٹی کا اعلان کیا ہے۔
وہیں اب حجاب تنازع پر کرناٹک ہائی کورٹ Karnataka High Court on Hijab Ban نے سماعت کو بڑی بینچ ریفر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بدھ کو اس معاملے کی سماعت کے بعد ہائی کورٹ کے جسٹس کرشنا دکشت کی سنگل بینچ نے معاملے کو بڑی بینچ کو بھیج دیا ہے۔
ہائی کورٹ میں سماعت پر طلبہ کے وکیل ایڈوکیٹ ابھیشیک جناردھن نے کہا کہ' ہائی کورٹ نہایت صبر و سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے کی سماعت کر رہی ہے۔'
کیا ہے پورا معاملہ:
کرناٹک حکومت نے ریاست میں کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ 1983 کی دفعہ 133 کو نافذ کیا ہے جس کی وجہ سے تمام سکولوں اور کالجوں میں یونیفارم کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس کے تحت سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں مقررہ یونیفارم پہنا جائے گا جبکہ پرائیویٹ اسکول و کالجز اپنی مرضی سے یونیفارم کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
اس فیصلے پر تنازع گزشتہ ماہ جنوری میں شروع ہوا تھا جب اُڈوپی کے ایک سرکاری کالج کی 6 طالبات حجاب پہن کر کالج میں داخل ہوئیں لیکن انہیں کیمپس سے نکال دیا گیا۔
طالبہ کا کہنا ہے کہ وہ کلاس میں داخل ہونے سے قبل اپنا برقعہ یعنی نقاب اتار کر صرف حجاب میں کلاس کرتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی طالبہ حجاب میں کلاس کرتی تھی۔ لیکن اچانک تنازع شروع ہوگیا۔
اس کے بعد کنڈا پور اور بندور کے کچھ دوسرے کالجوں سے بھی ایسے ہی معاملے سامنے آئے۔
مجموعی طور پر معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا ہے تاہم حجاب کو لے کر کئی اضلاع میں کشیدگی پیدا ہوئی گئی جس میں باحجاب طالبات کی مخالفت میں بھگوا شر پسندوں نے بھگوا شال اور بھگوا مفلر پہن کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی۔
حالات کشیدہ ہوتا دیکھ کر وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے تین دن کے لیے اسکول اور کالج بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 25(1) ضمیر کی آزادی اور آزادی سے مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اس آزادی کے استعمال میں کوئی مداخلت یا رکاوٹ نہ ہو۔ تاہم تمام بنیادی حقوق کی طرح، ریاست عوامی نظم، شائستگی، اخلاقیات، صحت اور دیگر ریاستی مفادات کی بنیاد پر حق کو محدود کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ طے کرنے کی کوشش کی ہے کہ کن مذہبی طریقوں کو آئینی طور پر تحفظ دیا جا سکتا ہے اور کن چیزوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ 1954 میں سپریم کورٹ نے شرور مٹھ کیس میں فیصلہ دیا تھا کہ لفظ 'مذہب' میں وہ تمام رسومات اور عادات شامل ہوں گی جو مذہب کے لیے 'اٹوٹ' ہیں۔
مزید پڑھیں: