بیدر ضلع میں 40 فیصد سے زائد لوگ اردو زبان بولتے ہیں یا یوں کہیں کہ ان کی مادری زبان اردو ہے باوجود اس کے یہاں پر اردو کا چلن دھیرے دھیرے کم ہوتا جا رہا ہے جہاں تک اپنی مادری زبان کا سوال ہے اس کو سرکاری سطح پر امپلیمنٹ کرنے کے لیے مسلم قائدین اردو کا دم بھرنے والی تنظیمیں شعراء ادباء اور اردو صحافیوں سمیت وہ تمام احباب جن کی مادری زبان ارددو ہے زندہ رکھنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں بیدر ضلع میں کئی پروگرامس ہوئے ان پروگراموں کے اعلانات اور پوسٹرز دعوت نامے بڑے بڑے فلیگس پر اردو کو نظر انداز کیا گیا ہے، ایسی جگہ پر جہاں پرنصف سے زائد مسلم آبادی ہے جن کی مادری زبان اردو ہے اور ایک مسلم رکن اسمبلی ہے باوجود اس کے اردو کا چلن کہیں دکھائی نہیں دیتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقامی قیادت اردو کے فروغ میں ناکام ہوئی ہے تو دوسری جانب اردو کے نام پر چلائے جانے والے ادارہ جات اردو زبان کی فروغ کو لیکر غیر سنجیدہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس کی مادری زبان اردو ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو کو بچانے کی کو شش کرے ،عوام جن نمائندوں کو منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجتی ہے یہ اس کا اولین فریضہ بن جاتا ہے کہ وہ اپنی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان کے تحفظ اور بقا کے لئے پہل کرے مگر یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے اردو زبان کے فروغ اور ترقی میں پوری طرح ناکام ہیں۔
قائد نے کہا کہ ضلع بیدر میں مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی کا سٹیلائٹ کیمپس جس کا قیام بیدر میں عمل میں لایا جانا تھا آج تک وہ پورا نہیں ہوا اس کے علاوہ انہوں نے چھ سو سالہ قدیم محمود گاواں اردو لائبریری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محمود گاواں اردو لائبریری ملک بھر میں مشہور تھی،یہاں پر کئی نایاب اور نادر کتابیں موجود تھے مگر ناکام قیادت کی وجہ سے آج یہ لائبریری بند ہے لائبریرین کی تنخواہ کا مسئلہ اور دیگر کئی مسائل کے شکار کے سبب آج محمود گاوان اردو لائبریری بند ہوگئی ہے۔
مرزا صفی اللہ بیگ قائد مجلس اتحاد المسلمین نے پڑوسی ریاست تلنگانہ اور آندھراپردیش میں اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیے جانے پر کہا کہ بیدر ضلع کا بالکل پڑوسی ریاست تلنگانہ اور آندھرا پردیش ہے جہاں پر اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے ان ریاست میں اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ اس لئے ملا ہے کہ وہاں کے قائدین اردو زبان کو لے کر سنجیدہ ہیں ،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ریاست کرناٹک کے مسلم قائدین جن کی مادری زبان اردو ہونے کے باوجود بھی ریاست کرناٹک میں اردو زبان کو سرکاری دوسری زبان بنانے کی فکر اور سوچ سے کوسوں دور ہیں۔