جموں و کشمیر میں حد بندی کمیشن کی سفارشات J&K Delimitation پر جہاں وادی کشمیر کی سبھی سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے، وہیں جموں صوبے میں بھی حد بندی کمیشن کی سفارشات کو ’’جانبدارانہ‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
حد بندی کمیشن پر شیعہ آبادی کو نظر انداز کرنے کا الزام شیعہ فیڈریشن جموں نے حدبندی کمیشن کی سفارشات Shia Federation jammu on J&K Delimitation کے حوالے سے جموں ایک پریس کانفرنس منعقد کی جس میں انہوں نے حد بندی کمیشن کی ڈرافٹ رپورٹ کو ’’جانبدارانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے جموں خطے کی مسلم آبادی خصوصا شیعہ مسلمانوں کو دبانے کا حربہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’حد بندی کمیشن میں اگر درجہ فہرست قبائل و ذاتوں کو ریزرویشن دی گئی تو جموں خطہ میں مسلم اکثریتی علاقوں کو کیونکر نظر انداز کیا گیا؟‘‘
قابل ذکر ہے کہ چند روز قبل مرکزی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی حدبندی کمیشن نے جموں خطے کے لیے 6 اضافی اسمبلی نشتوں جبکہ کشمیر خطے کی لیے صرف ایک اضافی نشست کی تجویز کرکے ڈارفت کو ایسوایٹ ممبران (پارلیمینٹ ممبران) کو پیش کیا، جس کی جموں و کشمیر میں سیاسی جماعتوں سمیت عوام کی جانب سے وسیع پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔
شیعہ فیڈریشن جموں کے صدر نے پریس کانفرنس کے دوران حدبندی کمیشن کی سفارشات کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا: ’’اس ڈرافٹ میں صرف ایک طبقے کو خوش کیا گیا ہے، ڈرافٹ میں شیعہ مسلمانوں، سکھ برادری، مسیحی برادری حتی کہ خواتین کو بھی نظر انداز کیا گیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں قریب 12 لاکھ شیعہ افراد آباد ہیں جنہیں حد بندی میں یکسر نظر انداز کیا گیا۔
واضح رہے کہ دارلحکومت دہلی میں حد بندی کمیشن کی جانب جموں صوبے کے لیے چھ اضافی اور کشمیر کے لیے ایک اضافی نشست کی تجویز کو نیشنل کانفرنس نے مسترد کر دیا۔ بی جے پی رہنما نے دعویٰ کیا تھا کہ فاروق عبداللہ سمیت دیگر اراکین نے حدبندی سفارشات کو تسلیم کر لیا تاہم سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے اسکی سخت مخالفت کی تھی۔