جموں و کشمیر کے جموں علاقے میں ضلع انتظامیہ کی جانب سے انہدامی کاروائی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کاروائی پر لوگوں نے سوالیہ نشان لگایا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ خاص طبقے سے وابسطہ لوگوں کو انہدامی کاروائی کا نشانہ بنا رہی ہے۔
ہال ہی میں جموں ضلع انتظامیہ نے صدرا، رگوڈا، باندی محلہ لئور دواڈہ جیسے علاقوں میں غیر قانونی طور پر رہ رہے لوگوں کے مکانوں کو گرانا شروع کیا۔ اس تعلق سے جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا تھا۔ عدالت کے مطابق جموں میں ناجائز قبضے کو ہٹایا جائے کا۔ اس کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی اور بلی چرانہ، صدرا، بٹھنڈی، علاقوں میں انہدامی کاروائی شروع کی اور آج باندی نامی ایک گاؤں میں متعدد مکانوں کو مسمار کیا گیا۔
انہدامی کاروائی میں اقلیتی طبقہ نشانے پر متاثرین کا کہنا ہے کہ 'وہ 50 برسوں سے یہاں پر رہائش پذیر ہیں اور محکمہ جنگلات و محکمہ مال نےکھبی بھی انہیں یہاں رہنے پر اعتراض نہیں کیا لیکن اب اچانک انتظامیہ نے ہمارے گھر تھوڑے ہیں، جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہیں کہ خاص طبقے کے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔'
یہ بھی پڑھیں:
سڑک مکمل نہ ہونے کے خلاف احتجاج
باندی نامی ایک گاؤں میں آج صبع محکمہ مال و محکمہ جنگلات نے انہدامی کاروائی شروع کی اور گوجر بکروال طبقے سے وابسطہ لوگوں کے گھر مسمار کیے۔
متاثرہ شخص نور محمد کا کہنا تھا کہ 'اگرچہ جموں میں دیگر لوگوں نے جنگلات کی سینکڑوں کنال اراضی کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے لیکن ان پر محکمہ جنگلات کاروائی نہیں کی۔ جبکہ اقلیت میں رہ رہیے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔' ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم 50 برسوں سے یہاں رہ رہیے اور اچانک آج ہمارے گھر مسمار کیے گئے۔'
انہوں نے کہا کہ 'اگر محکمہ یا گورنمنٹ ہمارے مکان گرا رہے ہیں تو اس صورت میں وہ ہمیں اس کے متبادل جگہ یا معقول معاوضہ فراہم کریں تاکہ ہمیں سڑک کے کنارے سونے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔
ای ٹی وی بہارت نے اس ضمن میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے سینیئر وکیل شیخ شکیل سے ان کا ردعمل جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہ 'جموں میں 20 لاکھ کنال اراضی اسٹیٹ لینڈ کے دائرے میں ہے تاہم کاروائی محض اقلیت میں رہ رہیے لوگوں پر کی جا رہی ہے۔'
انہوں نے سرکار کی اس انہدامی کاروائی پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ 'کیا جموں میں صرف غریب غیر قانونی طور پر مکانوں میں رہ رہیے ہیں؟'
انہوں نے کہا 'یہ ایک سازش ہے جس کے تحت ایک ہی طبقے کے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ اثر رسوخ رکھنے والے افراد کو رعایت دی جا رہی ہے جبکہ خانہ بدوش طبقہ سے وابسطہ افراد کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔'