جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے سینئیر وکیل شیخ شکیل نے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر دفاع راجناتھ سنگھ و فوجی سربراہ سے اپیل کی ہے کہ وہ شوپیاں امشی پورہ کی ہلاکتوں کی تحقیقات کرائے تاکہ جموں کشمیر کے عوام کا حکومت اور دیگر ایجنسیوں پر اعتماد برقرار رہے۔
انہوں نے کہا مبینہ طور پر مارے گئے نوجوانوں کے اہلخانہ کو شوپیاں جانے کی اجازت دی جائے اور ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے تاکہ شوپیان تصادم پر کھڑے کئے گئے سوالات کا جواب مل جائے۔
شوپیان انکاؤنٹر: 'غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے عوام کا اعتماد بحال کیا جائے' یہ بھی پڑھیں:
کیا شوپیان انکاؤنٹر فرضی تھا؟قابل ذکر ہے کہ گزشتہ مہینے کی 15 تاریخ کو راجوری کے رہنے والے امتیاز حسین، ابرار احمد اور تیسرے مزدور کا نام بھی ابرار احمد ہے، اپنے گھر سے شوپیان مزدوری کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے تاہم 17 جولائی کے بعد وہ اپنے رشتے داروں کے رابطے میں نہیں آئے۔ جس کے بعد گزشتہ دنوں ان تینوں افراد کے اہلخانہ نے گمشدگی کی اطلاع پولیس اسٹیشن میں درج کرائی۔
یہ بھی پڑھیں:شوپیان انکاؤنٹر: 'ملک کی خدمت کر کے آج ہم ہی مجبور و لاچار ہیں'
وہیں دوسری جانب سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پر ان کی گمشدگی اور جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان میں 18 جولائی کو ہوئے نامعلوم عسکریت پسندوں کی تصویریں وائرل ہو گئی ہیں جس کے بعد بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیا نے کہا 'ہم نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پر راجوری کے تین مزدوروں کے لاپتہ ہونے کی خبریں اور ان کی اس تصادم کے ساتھ وابستگی کی خبوں سے واقف ہیں۔ فوج اس تعلق سے تحقیقات کر رہی ہے۔'
گھر والوں، سوشل میڈیا اور فوج کی طرف سے دئے گئے تازہ بیان کے مطابق لوگوں میں خدشہ ہے کہ آمشی پورہ شوپیان میں 18 جولائی کو جو انکاؤنٹر ہوا تھا وہ فرضی تھا اور فوج نے جو دعویٰ کیا تھا کہ یہ تینوں عدم شناخت عسکریت پسند ہیں، اصل میں یہ راجوری کے تین نوجوان ہیں جو شوپیان مزدوری کرنے کے لیے آئے تھے۔