ملک میں چند برسوں کے دوران جہاں خواتین کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنانے کے 32,960 کیسز درج کیے گئے ہیں، وہیں 8,000 سے زائد کیسز جموں و کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔
صنف نازک پر تشدد ڈھانے کے واقعات میں اضافہ کیوں؟ اگرچہ جموں و کشمیر میں خواتین پر گھریلو تشدد، چھیڑ چھاڑ اور فقرے کسنے کے واقعات میں اتنی زیادہ تعداد دیکھنے کو نہیں ملتی تھی، تاہم گزشتہ برسوں کے دوران خواتین پر ظلم ڈھانے کے اس طرح کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔
وہیں گھریلو تشدد کے ایسے بھی کئی واقعات ہیں جو ابھی تک کسی بھی جگہ رپورٹ نہیں ہوئے ہیں۔
ایک جانب چند برس قبل نئی دہلی میں ایک طالبہ کی اجتماعی ریپ کے واقعے نے پورے ملک کو ہلا کے رکھ دیا، جسے آج بھی نربھیا سانحہ کے نام سے جانا جاتا ہے وہیں سنہ 2018میں کٹھوعہ میں ایک آٹھ سالہ بچی کی جنسی زیادتی اور قتل نے بھی انسانیت کو شرمسار کیا تھا۔ وہیں حال ہی میں حیدرآباد میں ویٹنری ڈاکٹر کے ساتھ حیوانیت کی گئی اور اس کے بعد اس کا قتل کر دیا گیا، اس واقعے نے بھی ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس واقعے کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی، جس پر وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خواتین پر ڈھائے جا رہے تشدد کے واقعات کو روکنے کے لئے حکومت مزید سخت قانون بنانے کے لیے تیار ہے، تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ خواتین پر بڑھتے تشدد کے واقعات کو روکنے کے لیے سرکار کو مزید سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ادھر سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ صرف قوانین سخت کرنے سے ہی خواتین کے تئیں بڑھتے تشدد کو روکا نہیں جا سکتا ہے، بلکہ سماجی سطح پر بھی اس حوالے سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
صنف نازک کو تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں جہاں سرکار کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا وہیں عوام کو بھی اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس و ادراک کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، تبھی جاکر خواتین کو تشدد کا نشانہ بننے سے روکا جا سکتا ہے۔