بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت معطل ہونے کی وجہ سے نہ صرف جموں و کشمیر کے تاجروں کو نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے بکہ اس کی وجہ سے ایشیائی تجارت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
بھارت ۔ پاک کے درمیان تجارت بند ہونے سے خطے میں پڑرہے ہیں منفی اثرات جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے تاجروں کا کہنا ہے'بھارت اور پاکستان کا تجارت معطل رہنے کی وجہ سے یہاں کے تاجروں کو زبردست نقصان ہو رہا ہے۔' انہوں نے کہ بھارت اور دیگر ہمسایہ ممالک کے درمیان ہونے والا تجارت سیاسی تناؤ کا شکار نہیں ہوتا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ ہونے والا تجارت اکثر حالات کے رحم و کرم پر منحصر ہوتا ہے۔
مقامی تجارت پیشہ افراد اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو تجارت اور سیاست الگ الگ رکھنے چاہیے تاکہ ایشیا بھی یورپ کی طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔
قابل ذکر ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت نہ ہونے کے باعث جنوبی ایشیا کی علاقائی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے انسٹیٹیوٹ کے ورکنگ پیر کے مطابق 'جنوبی ایشیا کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین اور ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز کے تجربات سے سبق لیکر کثیر الجہتی انسٹیٹوٹ کو فروغ دیتے ہوئے علاقائی تعاون کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔'
وہیں تجارت پیشہ افراد کا ماننا ہے گزشتہ برس کے دوران بھارت اور پاکستان کے درمیان آپسی رسہ کشی کے باعث ایل او سی تجارت بند ہونے سے نہ صرف دونوں ممالک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بلکہ سارک ممالک پر بھی اس کا خاصاً اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔
اس سلسلے میں مشورہ دیا گیا کہ جنوبی ایشیا کو 2022 تک تمام اراکین کے لیے سارک کی سطح پر مفت تجارتی معاہدے پر عمل درآمد کرنا چاہیے اور نئے انفراسٹرکچر تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ سرحدی تنازعات کے حل کے لیے آپسی تعاون کرنا چاہیے۔
اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ یورپین ممالک سیاست کو آپسی تجارت کے درمیان آڑے آنے نہیں دیتے ہیں لیکن سارک ممالک خاص طور پر بھارت اور پاکستان کے درمیان تاجر بند ہونے اور بحالی کے لیے سیاست ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔
واضح رہے اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ معاشی آزادی اور خودمختاری، علاقی انضمام اور غیر روایتی سیکورٹی خطرات جیسے اہم مسائل کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔