حکام نے 4 اور 5 اگست کی درمیانی رات مواصلاتی نظام معطل کردیا اور شہر سرینگر سمیت تمام بڑے قصبوں میں عوام کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی ہے۔
حکام کو خدشہ ہے کہ ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرنے اور اس کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوسکتے ہیں۔
تقریباً 36 گھنٹوں سے گزرنے کے بعد بھی موبائل اور انٹرنیٹ خدمات کے ساتھ ساتھ پورا مواصلاتی نظام متاثر ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ابھی تک تشدد کے کسی بھی واقعے کے رونما ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ سمیت پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون کو حراست میں لیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سرینگر اور وادی کے دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ خطہ چناب اور پیر پنچال میں بھی بہت سے لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
صورتحال کے مد نظر گورنر ستیہ پال ملک نے دوران شب آرمی کے شمالی کمانڈر لیفٹننٹ جنرل رنبیر سنگھ کے ساتھ میٹنگ کی اور حالات کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔