جان کیٹس کا خطاب حاصل کرنے والے صوفی شاعر رسول میر کا آبادئی مسکن شاہ آباد ڈورو میں واقع ہے۔ رسول میر اعلی اور بلند درجے کے شاعر تھے ۔جنہوں نے اپنے خوبصورت کلام کے ذریعہ کشمیر کی خوبصورتی کو نہ صرف چار چاند لگا دیا بلکہ اسے پوری دنیا میں متعارف بھی کرایا۔
رسول میر کے کلام سے محرومی کی وجہ کیا ہے؟ مقامی شاعر رسول میر اسی کارواں کا ایک ایسا تابندہ چمکتا ستارہ ہے جن کا کلام ہر دور کے لیے مشعل راہ ہوگا۔
رسول میر نے کشمیری غزل گوئی کو ایک نیا رنگ و آئنگ دیا ہے۔اُس زمانے میں کشمیری شاعری میں تصوف کا زیادہ زور تھا۔ صوفیانہ شاعری کو ہی زیادہ پسند کیا جاتا تھا اور اکثر شعراء اپنی شاعری میں عارفانہ کلام کو ہی ترجیح دیتے تھے کیوں کہ ایسا ہی لوگوں کا مزاج بن گیا تھا لیکن رسول میر نے عام روِش کو چھوڑ کر کشمیری شاعری کو تصوف کے روایتی اظہار سے نکال کر کے رومی کے رنگ میں رنگ دیا۔
محکمہ آرٹ اینڈ کلچر اور ویری ناگ ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہر سال رسول میر کی یاد میں ایک محفل کا انعقاد کرتا تھا جس میں شرکاء نہ صرف ان کی غزلوں کی اسالیب پر بحث و مباحثہ کرتے بلکہ ان کی شعری خدمات پر بھی روشنی ڈالتے تھے۔ اس موقع پر رسول میر کی یاد میں دور حاضر کے گلوکار اپنی آواز سے ان کی غزلوں کو گاتے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا کرتے۔
سرکاری سطح پر اگرچہ ہر سال اکیس جون کو رسول میر کو بطور خاص یاد کیا جاتا ہے لیکن وقت گزرتے ہی سرکار کی طرف سے سرد مہری دیکھنے کو ملی جس کے سبب اب گذشتہ چھ سالوں سے اس دن کسی بھی طرح کی تقریب کا انعقاد نہیں کیا جاتا جس سے ادبی حلقوں میں سخت مایوسی ہے۔
ساتھ ہی نئی نسل دھیرے دھیرے رسول میر کے کلام سے محروم ہو رہی ہے۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ کشمیر میں انہیں فراموش کردیا جائےگا۔