پانچ اگست کی صبح مودی حکومت نے نہ صرف آئین کی دفعہ 370 کو غیر مؤثر بنادیا بلکہ جموں و کشمیر کے شہریوں کو خصوصی مراعات دینے والی دفعہ 35اے کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔
حکومت نے ریاست کی تشکیل نو کا اعلان کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو ختم کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام دو علیحدہ علاقوں لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کردیا۔
دفعہ 370 کا خاتمہ، بی جے پی کا دیرینہ مشن تھا جسے پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل ہونے کے فوراً بعد پورا کردیا گیا۔ بی جے پی کہتی ہے کہ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد بھارت کے سبھی خطے ایک جیسے ہوگئے۔
جموں و کشمیر کی باضابطہ تقسیم 31 اکتوبر کو ہوگی لیکن اس سے پہلے ہی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد ضابطے کی کاروائی شروع کردی گئی ہے۔ ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ساتھ ہی ریاست کا آئین بھی ناقابل عمل ہوگیا۔
حکام نے سرینگر کے نیو سیکرٹریٹ پر جموں و کشمیر کا ریاستی پرچم لہرانا بند کردیا ۔ یہ پرچم ترنگے کے ساتھ لہرایا جاتا تھا۔
برخاست شدہ اسمبلی کے اسپیکر ڈاکٹر نرمل سنگھ نے، جو بی جے پی کے سینیئر لیڈر ہیں، اپنی گاڑی سے ریاستی پرچم ہٹادیا۔ ریاست کے سرخ پرچم پر ہل کا نشان تھا، جو محنت کش کسانوں کو ظاہر کرتا تھا اور تین سفید لکیریں تھیں، جو کشمیر، جموں اور لداخ خطوں کی ترجمان تھیں۔
جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب ملک کی کسی بھی ریاست میں مسلمان اکثریت میں نہیں ہوں گے۔ یہ امتیاز صرف جموں و کشمیر کو حاصل تھا۔
مبصرین کہتے ہیں کہ دفعہ 370 کی ہیئت تبدیل کرنے سے جموں و کشمیر کی تاریخ کا دھارا بدلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس اقدام کی شدید ترین ضرب، ان کشمیر نشین سیاست دانوں اور انکی پارٹیوں پر پڑی ہے جو جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے طرفدار تھے لیکن ریاست کی خصوصی حیثیت کو نہ صرف برقرار رکھنے کی وکالت کرتے تھے بلکہ اسے مزید مضبوط بنانے کا مطالبہ کرتے تھے۔
ان سبھی رہنماؤں کو حکام نے دفعہ 370 ختم کرنے کے فیصلے سے ایک دن پہلے ہی نظر بند کردیا تھا۔ ان میں تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی شامل ہیں۔ حکام نے متعدد سابق وزرا، قانون سازیہ کے اراکین اور ہند نواز لیڈروں اور کارکنوں بھی حراست میں لیا۔
کشمیر میں یہ بات ناقابل تصور تھی کہ جن لوگوں نے علیحدگی پسندوں کا مقابلہ کیا اور اپنی حکومتوں کے دوران ملک کے مفادات کے تحفظ کیلئے، علیحدگی پسندوں کے خلاف سخت گیر پالیسی اپنائی، انہیں بھی کسی وقت جیلوں کی ہوا کھانی پڑے گی۔ بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ کرنے والے اکثر لیڈروں کو حکام نے ایک طویل مہم کے دوران پہلے ہی جیلوں میں بند کردیا تھا۔