جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں کشمیر چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے تاجروں نے میڈیا سے گفتگو کی جس دوران انہوں نے وادی میں معاشی نقصان کے بارے میں جانکاری فراہم کی۔
'کشمیری تاجر ناقابل تلافی نقصان سے دوچار' ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کشمیر چیمبرز اف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر شیخ عاشق کا کہنا ہے کہ' کشمیر میں ہو رہے معاشی نقصان کے بارے میں کئی بار انہوں نے سرکاری افسران بشمول لیفٹینٹ گورنر کی نوٹس میں لایا تاہم ابھی تک اس جانب ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
عاشق کے مطابق "سبھی افسران ترقی کی باتیں کر رہے ہیں جبکہ اصل میں ترقی کے بجائے ہم روز با روز تنزلی میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔'
کشمیری تاجروں کی شکایت ہے کہ گزشتہ برس اگست سے پیداشدہ صورتِحال سے یہاں کے تاجر ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ہیں۔
مقامی تاجر رؤف پنجابی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ "ہمیں مالی اداروں، بینکز وغیرہ کی جانب سے جان بوجھ کر ہراساں کیا جا رہا ہے جس سے کشمیری معیشت بگڑتی جا رہی ہے۔'
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے مطابق گزشتہ قریب 7ماہ سے ہو رہے نقصانات سے نمٹنے اور تجارت کو ایک نئی جہت اور جلا بخشنے کے لیے انہیں کچھ وقت درکار ہیں اور اس وقت وہ ’’بینکوں کو قرضہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس مرکزی سرکاری کی جانب سے آئین ہند کی دفعہ 370کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات کی منسوخی کے بعد کشمیر میں کشیدہ حالات کی وجہ سے تجارتی اور دیگر سرگرمیاں ٹھپ ہونے کی وجہ سے یہاں کی معیشت کو کافی دھچکہ پہنچا۔
اس سے قبل سنہ 2008میں اُس وقت کی ریاستی حکومت کی جانب سے امرناتھ شرائن بورٹ کو زمین منتقل کرنے پر کشمیر میں کئی ماہ تک حالات کشیدہ رہے جس سے یہاں کی معیشت کو کافی ںقصان پہنچا تھا۔
سنہ 2010کے وسط میں بھی عوامی احتجاج کی وجہ سے کئی ماہ تک کشیدہ حالات اور 2014کے تباہ کن سیلاب نے کشمیر کی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔
عسکریت پسند برہان وانی کی 2016میں ہلاکت کے بعد بھی پورے سرما کشیدہ حالات، بندشوں اور قدغنوں نے یہاں کی معیشت پر بے حد خطرناک اور برے اثرات مرتب کیے تھے۔
ایک اور مقامی تاجر شیخ فیروز کا کہنا ہے کہ ’’متعدد بحرانوں کی وجہ سے ہم بے حد پریشان ہوئے ہیں، ہم کسی چھوٹ یا رعایت کا مطالبہ نہیں کر رہے بس ہمیں (ان حالات سے باہر نکلنے کے لیے) کچھ وقت درکار ہے۔‘‘
شیخ فیروز نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’سرکاری اداروں کو ہماری حالت سمجھنی چاہئے، حالات نے ہمیں بے بس بنا دیا ہے ورنہ تاجرین وعدہ خلاف اور ڈیفالٹرز نہیں ہے۔‘‘
رواں ماہ کے اوائل میں بیس سے زائد تجارتی اداروں اور انجمنوں نے مشترکہ طور بیان جاری کرتے ہوئے مختلف بینکوں سے گزارش کی تھی کہ (قرضہ ادائیگی کے لیے )انہیں کچھ وقت دیا جائے۔ بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ’’ہمیں قرضے سے انکار نہیں، ہم مقروض ہیں اس بات میں بھی کوئی شک نہیں تاہم اس کے لیے ہمارے اہل خانہ کو نشانہ نہ بنایا جائے۔‘‘
رؤف نے دعویٰ کیا کہ ’’مالی اداروں اور بینکوں کی جانب سے پولیس کی مدد سے تاجروں کے گھروں پر چھاپہ مارا جا رہا ہے جو کہ سراسر ہراسانی ہے۔‘‘
فیڈریشن آف چیمبرس اینڈ انڈسٹریز کے اشرف میر کا کہنا تھا کہ ’’تاجر برادری کو اُس وقت شدید دھچکا پہنچا جب گزشتہ برس گورنر انتظامیہ نے سیاحوں اور امرناتھ یاتریوں کو فوری طور وادی چھوڑ کر اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کی ایڈوائزری جاری کر دی۔‘‘
میر کے مطابق ’’ایڈوائزری کے بعد نہ صرف سیاح بلکہ تقریباً سبھی غیر مقامی کاریگر اور مزدور بھی واپس لوٹ گئے جس سے یہاں کی معیشت مزید خراب ہو گئی۔‘‘
ایک طرف کشمیری تاجرین غیر یقینی صورتحات سے نمٹنے اور اپنی تجارت کو مستحکم کرنے میں جٹے ہیں وہیں دوسری جانب گورنر انتظامیہ مختلف شہروں میں روڑ شو کے ذریعے سرمایہ کاروں کو جموں و کشمیر میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دینے میں مصروف ہے۔
توقع ہے کہ گلوبل انوسٹرز سمٹ جموں اور سرینگر میں منعقد ہوں گے جس کے لیے انتظامیہ نے سرمایہ کاروں کو لبھانے کے لیے پہلے ہی جموں و کشمیر میں 6ہزار ایکڑ زمین کی نشاندہی کی ہے۔
اس ضمن میں شاہد کاملی کا کہنا تھا کہ وہ بھی ایسے اقدامات کی سراہنا کرتے ہیں تاہم وہ ’’تذبذب‘‘ کا شکار ہے کیونکہ ’’گلوبت انوسٹرس سمیٹ سے متعلق سرکار نے ابھی تک اپنا موقف پوری طرح واضح نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی وضاحت سامنے آئی ہے۔
شاہد کاملی نے دعویٰ کیا کہ اس ضمن میں انہیں رسمی طور اس سمیٹ میں شرکت کی کوئی دعوت موصول نہیں ہوئی ہے اور نا ہی کشمیری تاجرین سے کوئی مشورہ طلب کیا گیا ہے۔