ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے حکیم یاسین کا کہنا تھا کہ 'یہ بڑا افسوس اور المیہ ہے کہ جمہوریت کی بات کرنے والے رہنماؤں کو پانچ اگست کے بعد انتظامیہ نے قید کیا۔ یہ ایک تاریخی غلطی تھی اور ہمارے ساتھ زیادتی کی گئی۔'
'جمہوریت کے علمبردار رہنماؤں کو قید کرنا تاریخی غلطی' واضح رہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد حکیم یاسین سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو انتظامیہ نے نظر بند کیا یا پھر حراست میں لے لیا تاکہ وہ مرکزی حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج نہ کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ 'دفعہ 370 کی منسوخی ایک تاریخی فیصلہ ہے جس کو ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اس مقدمے کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے لہذا اس پر تب تک بات کرنا مناسب نہیں ہوگا جب تک کورٹ کوئی فیصلہ نہیں سنائے گا۔'
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 'دفعہ 370 پر کشمیر میں سیاسی رہنماؤں کی جانب سے کوئی بیان اس لیے نہیں آیا کیوںکہ حکومت نے ان کو قید رکھا اور ان پر دیگر قدغنیں عائد کی۔'
حکیم یاسین نے کہا کہ 'جدو جہد صرف رہنماؤں کی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے بلکہ ہر اس فرد کی، جو اس فیصلے سے متاثر ہوا ہے چوںکہ تمام لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف ایک پرامن جدو جہد کی ضرورت تھی لیکن لوگوں پر قدغنیں عائد کی گئیں اور سیاسی رہنماؤں کو قیدو بند کیا گیا۔'
انہوں نے کہا کہ 'دفعہ 370 کو غیر آئینی طور منسوخ کیا گیا جس پر ہمیشہ افسوس رہے گا۔'
حکیم محمد یاسین نے کہا کہ 'ہمیں افسوس ہے، افسوس رہے گا اور افسوس کرتے رہیں گے کہ دفعہ 370 کو غیر آئینی طور منسوخ کیا گیا۔ ہمارے مطالبات آئین کے دائرے میں ہی رہے تھے اور اب بھی رہیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دیا جائے گا اور ڈومیسائل حقوق بھی واپس دئے جائیں گے جیسا کہ بھارت کے وزیر اعظم اور ملک کے وزیر داخلہ نے ملک کی پارلیمنٹ میں وعدہ کیا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'حکومت کو چاہیے کہ سابق تین وزرائے اعلیٰ سمیت دیگر ساسی رہنماؤں کو قید سے رہا کرے کیوںکہ انہیں جمہوری طور لوگوں نے منتخب کیے تھے۔ حکومت کو چاہیے کہ جتنا جلد ہو سکے ان کی رہائی یقینی بنائے۔'
حد بندی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ 'ابھی حد بندی کمیشن کی تشکیل کی جارہی ہے اور ہم امید کریں گے کہ کمیشن اور کوئی غلطی نہ کرے۔ ہمیں امید ہے کہ 2011 کے مردم شماری کے مطابق حد بندی کریں گے اور تمام خدوخال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سلسلہ پورا کریں گے۔'
انہوں نے کشمیر میں سیاسی تعطل کے بارے میں کہا کہ 'حکومت کو چاہیے کہ جتنی جلد ہو سکے جموں و کشمیر میں سیاسی عمل کو شروع کرنے کی اجازت دے۔'
سابق پی ڈی پی رہنما الطاف بخاری کی نئی سیاسی جماعت میں شامل ہونے یا اس کی حمایت کرنے کے سوال پر کہا کہ وہ ہر اس فرد یا سیاسی جماعت کی حمایت کریں گے جو لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مثبت رول ادا کریں گے۔