پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی دفعہ 370کے خاتمے کے بعد گورنر انتظامیہ کی جانب سے سخت ترین بندشیں عائد کرنے کے علاوہ مواصلاتی نظام کو بھی معطل کر دیا گیا۔ اس دوران صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سنہ 2016 میں عوامی مظاہروں کی عکس بندی کے دوران پیلٹ لگنے کے سبب ایک آنکھ کی روشنی سے محروم ہونے والے فوٹوجرنلسٹ ذہیب نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ' کشمیر جیسے حساس خطے میں صحافت خصوصاً فوٹو یا ویڈیو گرافی کرنا کافی مشکل ہے۔کیونکہ انکے مطابق ’’حساس علاقوں میں صحافیوں کے لئے مرتب کردہ قوانین کا اطلاق کشمیر جیسے خطے میں نہیں کیا جاتا۔'
ذہیب کے مطابق کشمیر میں صحافتی خدمات انجام دینا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ماضی کے چند واقعات دہراتے ہوئے ذہیب نے کہا کہ ' کئی بار سکیورٹی اہلکار عکس بندی کو کیمرے سے ڈیلیٹ کرواتے ہیں، وہیں بعض مرتبہ بلا جواز پٹائی کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو گرفتار بھی کیا جاتا ہے۔'
ذہیب کے مطابق صبح گھر سے نکلتے ہی والدین کے چہروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی جان اور سلامتی کے لیے پریشان ہیں۔