اطلاعات کے مطابق وادی میں علیحدگی پسند رہنماؤں سمیت ہند نواز سیاسی جماعتوں کے لیڈران و کارکنان کے علاوہ عام شہریوں کو بھی حراست میں لینے کا سلسلہ جاری ہے۔
جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے محمد مقبول ملک نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ان کے فرزند ' عُزیر مقبول کو 22اگست کو گرفتار کرکے اترپردیش ریاست کی آگرہ سینٹرل جیل میں منتقل کیا گیا۔'
پیشے سے ڈرائیور محمد مقبول کے مطابق انکا بیٹا مزدوری کرکے اپنا روزگار کما رہا تھا۔
محمد مقبول کا کہنا ہے کہ ' سومو گاڑی چلا کر انہیں ماہانہ تین سے چار ہزار روپے کی کمائی ہوتی ہے، کیونکہ وہ سومو بھی ان کی ذاتی نہیں۔'
کشمیری کنبے کا المیہ: غم، گرفتاری، غربت اور بیروزگاری محمد مقبول کے مطابق (دفعہ 370کی منسوخی کے بعد) مقامی فوجی کیمپ سے وابستہ اہلکاروں نے انکے بیٹے کے متعلق پوچھ تاچھ کی اور چھاپے ڈالے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے بعد انہوں نے ازخود بیٹے کو پولیس کے حوالے کیا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں انکے بیٹے کو گرفتار کیا جاچکا تھا لیکن رہائی کے بعد وہ اپنا معمول کا کام کیا کرتا تھا۔ کئی روز تک مقبول اور اسکے کنبے کو معلوم نہیں تھا کہ انکا بیٹا کہاں ہے تاہم اب انہیں اطلاع دی گئی ہے کہ اسے آگرہ جیل منتقل کیا گیا ہے۔
غریب اور مفلس ہونے کی وجہ سے محمد مقبول چار ہفتے گزرنے کے باوجود بھی آگرہ جیل اپنے فرزند سے ملاقات کے لئے نہیں جا سکے۔
واضح رہے کہ 5 اگست کے بعد عزیر جیسے سینکڑوں نوجوانوں کو سرینگر کے سینٹرل جیل میں جگہ کمی کے باعث آگرہ، جودھپور اور بریلی کی جیلوں میں منتقل کیا گیا