پارٹی کے ممبران پارلیمان ایڈوکیٹ محمد اکبر لون، جسٹس (ر) حسنین مسعودی، صوبائی سکریٹری ایڈوکیٹ شوکت میر، ترجمان عمران نبی ڈار اور ضلع صدر سری نگر پیر آفاق احمد نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں پارٹی نائب صدر عمر عبداللہ اور جنرل سکریٹری علی محمد ساگر پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے اطلاق کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے مرکزی حکومت کے وہ تمام بلد بانگ دعوے سراب ثابت ہوجاتے ہیں جن میں یہ دعوے کئے جارہے ہیں جموں وکشمیر میں صورتحال نارمل ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال معمول سے بہت زیادہ دور ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام عالم بھاجپا کی سربراہی والی حکومت کی جانب سے جموں وکشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ کے ساتھ روا رکھے جارہے سلوک پر تشویش اور تعجب میں مبتلا ہے۔
جموں و کشمیر کے عوام دہائیوں سے جن لیڈران پر اپنا اعتماد ظاہر کرتے آئے ہیں حکومت ہند آج انہی عوامی نمائندوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ نیشنل کانفرنس لیڈران کو اس لئے نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ ہماری جماعت وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے ساتھ اتفاق نہیں رکھتی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے پارلیمنٹ میں عمر عبداللہ کے ساتھ منسلک کئے گئے ریمارکس کو حقیقت سے بعید قرار دیتے ہوئے این سی لیڈران نے کہا کہ یہ انتہائی تشویشناک امر ہے کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں ایک مزاحیہ ویب گاہ کے حوالے سے عمر عبداللہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
ایک طرف وزیر داخلہ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی جموں وکشمیر کے محبوس سابق وزرائے اعلیٰ کو ملک دشمن نہیں کہا جبکہ دوسری جانب وزیر اعظم اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ لوگ عسکریت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔ وزیر داخلہ صحیح کہہ رہے ہیں یا وزیر اعظم کے دعوے پر بھروسہ کیا جائے؟