فرزانہ کا کہنا ہے کہ وہ اکثر اپنی والدہ سے اپنے والد کے بارے میں سوال کرتی تھی تاہم جواب بس اتنا ملتا تھا کہ " بیٹا آپ کی ماں اور باپ میں دونوں ہوں۔"فرزانہ کا کہنا ہے کہ " میری والدہ نے میرے لیے اور میرے تین بھائیوں کے لیے ہر ایک چیز میسر رکھی۔ مجھے کبھی والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ میں اپنے گھر میں سب سے چھوٹی ہو اور شاید اپنے والد کی لاڈلی بھی ہوتی۔ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا لیکن سب سے ان کے بارے میں اچھا اچھا سنا ہے۔ انکا کیا قصور تھا میں نہیں جانتی۔ وہ کہاں ہیں کس حال میں ہیں ہمیں اس بات کی بھی کوئی علم نہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ " مجھے اللہ پر بھروسہ ہے اور انشاء اللہ میرے والد واپس لوٹیں گے۔ میں انہیں سب سے پہلے گلے لگاؤں کی اور اپنے شکوہ شکایت ان سے کروں گی۔ ایک تو وہ میرے آنے سے پہلے ہی چلے گئے اور ان کے جانے کے بعد جو مشکلات ہمارے سامنے آئیں اس کے حوالے سے سوالات کی بوچھاڑ کرونگی اور انہیں جواب دینا پڑے گا۔"
فرزانہ کی والدہ رفیقہ کا کہنا ہے کہ " میرے تین بڑے بیٹوں کو اپنے والد کے بارے میں تھوڑا تھوڑا کچھ یاد ہے لیکن بیٹی کو کچھ بھی نہیں۔ یہ تو میرے پیٹ میں ہی تھی۔ میں نے کن مشکلات کا سامنا کر کے اپنے بچوں کو پالا ہے یہ میں نہیں جانتی ہوں اور میرا خدا ہی جانتا ہے۔ کچھ لوگوں نے امداد بھی کی جس سے گھر کا خرچ چلا۔ آج میرا بیٹا ایک دکان پر کام کر کے گھر کا سارا خرچہ اٹھا رہا ہے۔ میرے بچوں کی تعلیم صحیح طریقے سے نہیں ہو پائے میں کیا کر پاتی۔ "
اپنے شوہر کے بارے میں بات کرتے ہوئے رفیق کا کہنا تھا کہ " مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے۔ ہم رنگ پورہ میں اپنے آبائی مکان میں رہتے تھے جب رات کو اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ معلوم چلا کہ بھارتی فوج کا چھاپا ہے۔ اس رات کو میں کیسے بھول سکتی ہوں۔ آج بھی جب دروازے پر دستک ہوتی ہے تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ فوج آئی انہوں نے میرے شوہر کو اپنے ساتھ لے لیا۔ اس دن سے آج تک ان کا کوئی اتا پتا نہیں۔ میں ہر دروازے پر گئی ہر افسر سے ملے لیکن میرے شوہر کے بارے میں مجھے کوئی خبر نہیں ملی۔ میں نہیں جانتی کہ وہ زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔"ان کا کہنا ہے کہ " ہر برس 30 اگست کے روز لاپتہ افراد کے متاثرین کا عالمی دن کے موقع پر ہم سرینگر کی پرتاپ پارک میں اکٹھا ہوکر احتجاج کرتے تھے۔ گزشتہ تین برسوں سے ایسا ممکن نہیں ہو پایا اور امسال تو عالمی وبا ہے تو آج بھی کچھ کرنا مشکل لگ رہا ہے۔"
گھریلو حالات کیسے رہے؟ اس سوال کے جواب میں رفیق کا کہنا تھا کہ " میرے شوہر کے لاپتہ ہونے کے بعد سسرال کی جانب سے بھی کافی مشکلات اٹھانی پڑی۔ میرے بچوں کو مجھ سے چھینا جا رہا تھا۔ ان کے لیے لڑنا پڑا۔ محلہ کمیٹی میں میرا ساتھ دیا اور آج یہاں معراج پورہ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہوں۔ اس دوران اے پی ڈی پی کی پروینہ آہنگر نے بھی ہماری مدد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ پیش پیش رہیں۔"