گزشتہ برس پانچ اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد وزیر داخلہ امت شاہ سمیت دیگر وزراء نے دعویٰ کیا تھا کہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی کا خاتمہ ہوگا۔
امت شاہ نے کہا تھا کہ 'ہم نے دفعہ 370 کو منسوخ کر کے پاکستان کی طرف سے جموں و کشمیر میں جاری پراکسی وار اور شدت پسندی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیا ہے۔ اس فیصلے سے کشمیر میں ہمیشہ کے لیے امن بحال ہوگا۔'
لیکن ایک برس کے بعد کشمیر کی صورتحال پانچ اگست سے قبل کے حالات سے ابتر ہیں۔ اگرچہ علیحدگی پسند خاموش اور پاپند سلاسل ہیں لیکن جموں و کشمیر میں تشدد کے واقعات میں کمی واقع نہیں ہوئی ہیں۔ ایک سال کے دوران غیر یقینی صورتحال اور تذبذب کا ماحول بر قرار ہے۔ ان ایام میں زندگی کا ہر شعبہ بندشوں کی وجہ سے بری طرح سے متاثر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
گزشتہ برس کی یاد ہوئی پھر سے تازہ
جموں و کشمیر کے ہند نواز سیاسی رہنماؤں کے علاوہ حکومت نے تقریباً 5161 افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان گرفتاریوں کی تفصیل دیتے ہوئی وزارت داخلہ کے جونیئر منسٹر جی کے ریڈی نے مارچ میں پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ 'محروس لوگوں میں سنگ باز، شر پسندعناصر، عسکریت پسندوں کے حامی، علیحدگی پسند اور مین اسٹریم سیاسی اراکین شامل ہیں۔ جموں و کشمیر کے باہر الگ الگ ریاستوں میں تقریباً 220 کشمیری افراد جیلوں میں قید ہیں۔ ان تمام قیدیوں کی رہائی کے متعلق حکومت ہنوز خاموش ہی ہے۔
اگرچہ امت شاہ نے کہا تھا کہ 'دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد تشدد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم حقائق اس دعوے کے برعکس ہیں۔'