جموں و کشمیر گزشتہ تین دہائیوں سے سرحد پار کی حمایت سے انجام دی جانے والی عسکریت پسندی سے متاثر ہے۔ پاکستان کے ذریعے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی خبر جموں و کشمیر میں صرف بین الاقوامی سرحد / لائن آف کنٹرول پر ہی ہے۔
حکومت نے عسکریت پسندی کو قطعاً برداشت نہ کرنے کی پالیسی اختیار کیا ہے۔
یہ باتیں امور داخلہ کے وزیر مملکت جی کشن ریڈی نے گزشتہ روز لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں بتائیں۔
جنگ بندی کی خلاف ورزیوں / سرحد پار فائرنگ کی صورت میں سلامتی دستوں کے ذریعے فوری اور مؤثر جوابی کارروائی کی جاتی ہے۔ حکومت کے ذریعے پیشگی اقدامات کے سبب گزشتہ تین برسوں کے دوران عسکریت پسندانہ حملوں میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔
جموں و کشمیر میں گزشتہ تین برسوں کے دوران ہر سال جنگ بندی کی خلاف ورزیوں، عسکریت پسندانہ حملوں کے واقعات، جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور عسکریت پسندانہ حملوں میں ہلاک / زخمی ہوئے شہریوں اور سلامتی دستوں کے عملہ نیز تصادم میں مارے گئے عسکریت پسندوں کی تعداد کی تفصیلات حسب ذیل ہے:
بی ایس ایف اور پاکستان رینجرس کے درمیان ڈی جی سطح کی آخری میٹنگ 8 سے 10 نومبر 2017 کو نئی دہلی میں ہوئی تھی۔ اس میٹنگ کے دوران سرحد پار فائرنگ کے معاملے پر تبادلہ خیال ہوا تھا، جس میں دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اس طرح کی کوئی فائرنگ نہ ہو۔ کسی بھی طرح کی فائرنگ کی صورت میں دوسرا فریق زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لے گا اور مواصلات کے سبھی دستیاب وسائل کے ذریعے فوری طور پر رابطہ کیا جائے گا، تاکہ صورت حال کو مزید آگے بڑھنے سے بچایا جاسکے۔ مختلف سطح پر کمانڈروں کے درمیان ضرورت کی بنیاد پر زمینی سطح پر فلیگ میٹنگیں بھی ہوتی ہیں۔
ایسے حملوں کے سبب خزانے کو ہونے والے نقصان کا تعین کرنے کے لئے کوئی تجزیہ نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم ایسے حملوں سے ہونے والے نقصان کے لئے شہریوں، سکیورٹی فورسیز کے عملہ وغیرہ کو معاوضہ دیا جاتا ہے۔