یورپی یونین کے امور خارجہ اور سلامتی پالیسی کے ترجمان ورجنی بٹو ہنریکسن نے یہ بیان جموں و کشمیر میں یورپی یونین کے نمائندوں سمیت 25 غیر ملکی سفیروں کے دو روزہ دورے کے بعد دیا ہے۔
ہنریکسن نے بیان میں کہا کہ' دورہ کشمیر نے زمینی صورتحال کو دیکھنے اور مقامی لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا ایک خوش آئند موقع پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ' اس دورے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ' بھارتی حکومت نے وادی میں معمولات زندگی بحال کرنے کے لیے مثبت اقدامات اٹھائے ہیں، چند پابندیاں اب بھی برقرار ہیں، خاص طور پر انٹرنیٹ تک رسائی، موبائل خدمات اور کچھ سیاسی رہنما اب بھی نظربند ہیں جبکہ ہم سکیورٹی کے سنگین خدشات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ باقی پابندیوں کو جلدی سے ختم کیا جائے۔'
واضح رہے کہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 25 سفارتکاروں پر مشتمل ایک وفد بدھ کے روز سرینگر پہنچا تھا اور سخت حفاظتی بندوبست اور ڈورن کیمروں کی نگرانی میں شہرہ آفاق جھیل ڈل کی سیر کے بعد گپکار میں واقع للت گرینڈ ہوٹل میں مختلف عوامی وفود کے علاوہ کئی سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کے ساتھ ملاقی ہوا تھا۔
مرکزی حکومت کی جانب سے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی منسوخی اور ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں منقسم کرنے کے پانچ اگست 2019ء کے فیصلوں کے بعد یہ کسی غیر ملکی وفد کا تیسرا دورہ کشمیر تھا۔
قابل ذکر ہے کہ غیر ملکی سفارتکاروں کے وفد کا یہ دورہ اس وقت ہوا جب دو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر حال ہی میں پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا جو سوشل میڈیا پر سیاسی گلیاروں سے لے کر صحافتی حلقوں تک گرم موضوع بحث بن گیا تھا۔