شملہ: ریاست ہماچل پردیش میں 12 نومبر کو 68 سیٹوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے اور 8 دسمبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ ہماچل سے متعلق ایک ریکارڈ بھی درج ہے۔ جہاں سنہ 1971 میں ریاست کی تشکیل کے بعد سے آج تک ہماچل میں کوئی بھی مسلم رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ ہماچل میں بھی مسلمانوں کی آبادی ہے، تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ دوسری طرف سکھوں کی آبادی مسلمانوں سے کم ہے، لیکن سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے کئی چہرے ہماچل اسمبلی پہنچ چکے ہیں۔ No Muslim MLA Elected in Himachal Pradesh
ہماچل میں مسلمانوں کی آبادی: سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہماچل کی کل آبادی 68 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس میں مسلمانوں کی آبادی 2.1% ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے جو چمبہ، سرمور، منڈی، بلاس پور، سرمور اور بالائی شملہ کے علاقوں میں رہتی ہے۔
آج تک مسلم ایم ایل اے کیوں نہیں بنے: ہماچل میں مسلمانوں کی آبادی 1.5 لاکھ کے قریب ہے، لیکن یہ آبادی ریاست کے کئی حصوں میں بکھری ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کسی ایک جگہ اتنی کم ہے کہ وہ اپنا نمائندہ منتخب نہیں کر سکتے۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہوسکتی ہے کہ آج تک کوئی بھی مسلم ایم ایل اے منتخب نہیں ہوا۔ ہماچل میں مسلمان نہ تو کسی لوک سبھا حلقے میں اور نہ ہی کسی اسمبلی حلقے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم نمائندہ نہ تو اسمبلی میں پہنچ سکا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ۔
مسلم آبادی کے بکھرنے کے ساتھ ساتھ ہماچل کی سیاست میں کوئی بڑا مسلم چہرہ اب تک ابھر نہیں سکا ہے، اسی وجہ سے آج تک کسی سیاسی پارٹی نے کسی مسلم چہرے کو ٹکٹ نہیں دیا۔ اس بار بھی صرف دو مسلم امیدواروں نے آزاد امیدوار کے طور پر اپنے کاغذات نامزدگی داخل کیے جن میں سے ایک امیدوار نے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔ اب آزاد امیدوار رمضان ضلع سرمور کے ناہن اسمبلی حلقہ سے واحد مسلم امیدوار ہیں۔