سنہ 2002 میں گجرات میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات پر بی بی سی کی جانب سے ایک دستاویزی سیریز فلم بنائی گئی ہے۔ جسے سوشل میڈیا سے ہٹا دیا گیا ہے،بھارت میں اس کی اسکریننگ پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس معاملہ پر گجرات کے مسلم رہنما اور سماجی کارکنا ن نے اپنےردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اس تعلق سے شاعر مظہر خان پٹھان نے کہا کہ 2002 کے فرقہ وارانہ فسادات کہ اتنے سال بیت جانے کے بعد بھی دنیا کے لوگ تسلیم کر رہے ہیں کہ گجرات میں جو فسادات ہوئے اس کی ذمہ دار یہاں کی اس وقت کی سرکار تھی، اور جو سچائی ہے وہ ہر حال میں سامنے آ ہی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کہنے کو تو ہمارا ملک جمہوریت میں یقین رکھتا ہے لیکن یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جس میں بی بی سی نے جودستاویزی فلم بنائی ہے اس پر حکومت نے پابندی لگا دی۔ اور جو لوگ اسے دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اس پر بھی یہ لوگ ظلم کر رہے ہیں۔ جس کی مثال جے این یو کے طلباء ہیں۔ سماجی کارکن آصف شیخ نے کہا کہ کسی نے کچھ برا نہیں کیا ہے اور کسی نے کوئی جرم نہیں کیا ہے تو آخر وہ ڈر کیوں رہا ہے؟ بی بی سی نے جو کچھ بتایا ہے اگر وہ آپ کو غلط ہے تو آپ اسے ثابت کر کے بتائیے وہ غلط ہے۔ لیکن اس ڈاکومنٹری کو نہیں دکھانے سے یہ شک لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ غلط ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو دکھایا نہیں جارہا ہے۔