نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کیس کے تمام 11 قصورواروں کو گزشتہ سال دی گئی معافی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر حتمی سماعت کے آغاز کے لیے 7 اگست کی تاریخ مقرر کی تھی۔ جس کی وجہ سے پیر کو اس کیس کی سماعت ہوئی۔ معافی کو چیلنج کرنے والی عرضی پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بلقیس بانو کی طرف سے پیش ہونے والی ایڈوکیٹ شوبھا گپتا نے کہا کہ اس کے حاملہ ہونے کے باوجود اس کے ساتھ وحشیانہ اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی اور اس کے پہلے بچے کو پتھر سے کچل کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ اس دوران وہ التجا کرتی رہی کہ وہ ان کے لیے ایک بہن کی طرح ہے کیونکہ وہ ان سب کو جانتی تھی اور وہ تمام ان کے علاقے کے آس پاس کے ہی رہائشی تھے۔
ایڈوکیٹ شوبھا گپتا نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس اور اس کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے مجرم بلقیس بانو کا خون کے پیاسے انداز میں پیچھا کر رہے تھے اور اس دوران وہ نعرے بھی لگا رہے تھے کہ یہ مسلمان ہیں، انہیں مار دو۔ شوبھا گپتا نے جسٹس بی وی ناگرتھنا اور اجل بھویان کی بنچ کو بتایا کہ ہائی کورٹ نے اس بات کا بھی نوٹس لیا ہے کہ ان کے ذریعہ کیا گیا جرم نایاب اور غیر معمولی قسم کا ہے۔ اس جرم کو فرقہ وارانہ نفرت کی وجہ سے انجام دیا گیا۔
وکیل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ 15 اگست 2022 کو مجرموں کی سزا معاف کرکے رہا کر دیا اور بلقیس کو اس کا علم اس وقت ہوا جب انھیں جیل کے باہر جشن مناتے دیکھا۔ مجرموں کو دی گئی معافی کی مخالفت کرتے ہوئے گپتا نے کہا کہ سی بی آئی نے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے معاشرے میں بڑے پیمانے پر ایک غلط پیغام جائے گا کیونکہ جرم اس نوعیت کا ہے کہ اسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس کیس کی سماعت منگل کو بھی جاری رہے گی۔