انہوں نے کہا کہ یہ بل مسلمانوں کے شرعی اور مذہبی معاملات میں سراسر مداخلت ہے۔
انہوں نے آج یہاں جاری ایک بیان میں کہا کہ مرکزی حکومت نے عددی طاقت کے بل پر تین طلاق پر جو بل منظور کیا ہے اور راجیہ سبھا میں جس انداز سے اس بل کومنظور کرایا گیا ہے وہ جمہوری روایات کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ جمہوریت کا استحصال بھی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ نکاح، طلاق، حلالہ، تعدد ازدواج وغیرہ عائلی مسائل اور دوسرے مذہبی امور میں صریح آزادی اور اپنے مذہب و عقیدے کے مطابق عمل کرنے کی آئین ہند میں صاف لفظوں میں ضمانت دی گئی ہے ۔
کسی بھی قانون ساز ادارے کے لیے کوئی ایسا قانون یا آرڈی ننس پاس کرنے کا قطعی حق نہیں ہے جس سے مخصوص طبقہ کے شرعی معاملات اور مذہبی امور میں مداخلت کی راہ ہموار ہوتی ہو۔
مولانا عرفی نے طلاق ثلاثہ بل کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اس سے مسلم مطلقہ خاتون کے ساتھ انصاف ہونے کی دور دور تک کوئی امید نہیں نظر آتی، بلکہ مسلم معاشرے پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اس سے مسلم مطلقہ خاتون کے ساتھ مسلم فیملی کا مستقبل بربادو تباہ ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے، کیوں کہ اس قانون کی رو سے وہ معلق ہو کر رہ جائے گی،وہ نہ تو از سر نو نکاح کرسکتی ہے اور نہ ہی اس کے اور بال بچوں کے نان نفقہ کی ادائیگی اور زندگی بسر کرنے کی کوئی سبیل ہی نکلتی نظر آتی ہے۔
مولانا قاسمی نے الزام لگایا کہ جب سے بی جے پی اکثریت کے ساتھ مرکزی اقتدار پر قابض ہوئی ہے وہ مختلف قسم کے حربے اپنا کر مسلمانوں کو اپنے مذہب و عقیدہ اور شرعی احکام پر عمل در آمد کرنے سے روکنا چاہتی ہے اور انھیں قانون سازی کے بہانے ذہنی طور پر الجھائے رکھنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم تنظیموں کو مذمتی قرارداد پاس کرنے اور اخبار میں بیان جاری کرنے کے بجائے اس قانون کا گہرائی سے جائزہ لے کر عدالت عظمی سے رجوع کرنا چاہیے۔
ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ہمیں بھی یک بارمیں تین طلاق دینے سے احتراز کرنا چاہیے اور جب بھی ہمیں مذہبی معاملات میں کوئی مسئلہ در پیش ہو تو دار الافتا اور دار القضا سے ہی رجوع کرنا چاہیے تاکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمارے عائلی مسائل کا حل نکل سکے اور کسی حکومت کو ہمارے مذہبی معاملات میں دخل نہ دیں۔