قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ کی خواتین مظاہرے کو آج دو ماہ مکمل ہوگئے ہیں اس دوران یہاں کی خاتون مظاہرین کو اس مظاہرہ کو جاری رکھنے کے لیے سخت آزمائشوں، امتحان، فائرنگ، شدت پسند تنظیموں کے حملے، پولیس کا احتجاج ختم کرنے کا دباؤ، طرح طرح کے طعنوں کا سامنا، پانچ سو روپے میں بکنے والی خواتین کے طور پر بتایا گیا ۔لیکن جمہوریت اور سیکولرازم کو بچانے کے لئے وہ ہر امتحان سے سرخرو ہوکر نکلی ہیں۔
گزشتہ 16دسمبر سے سریتاوہار کالند کنج روڈ پر اپنا مظاہرہ شروع کیا تھا۔ اس وقت یہ خاتون جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ پر پولیس کی وحشیانہ کارروائی اور قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مورچہ سنبھالا تھا ، جو اس وقت پورے ملک میں پھیل گیا ہے۔
اس وقت تقریباً دو سو سے زائد مقامات پر خواتین کا دن رات مظاہرہ جاری ہے۔ اس وقت شاہین باغ دہلی کے علاوہ بہار کے سبزی باغ، شانتی باغی، مہاراشٹر ، مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات، کرناٹک، آندھرا پردیش، اترپردیش، ہریانہ،کیرالہ، تلنگانہ ملک کے کونے کونے میں احتجاج جاری ہے۔
اسی کے ساتھ جارکھنڈ کے رانچی، کڈرو،لوہر دگا، بوکارو اسٹیل سٹی، دھنباد کے واسع پور، جمشید پور وغیرہ سمیت سیکڑوں مقامات پر مظاہرہ کر رہی ہیں۔
شاہین باغ خاتون مظاہرین پر جس طرح حملے کیے گئے اسی طرح خواتین اس کا مدلل اور مہذب انداز میں جواب دیا اور مخالفین کی سوچ کو اپنے مظاہرے پر حاوی ہونے نہیں دیا۔
شاہین باغ کو جب ملک کا غدار کہا گیا تو وہاں انڈیا گیٹ اور ہندوستان کا نقشہ بناکر پیش کردیا گیا۔ جہاں وہاں آزادی، آئین بچاؤ کے نعرے لگے، جے بھیم کے نعرے لگے وہیں جے شری رام کے نعرے بھی لگے، لیکن مسلم خواتین نے جوش و خروش کے ساتھ بھارت ماتا کی جئے بھی نعرے لگائے۔
جب اس مظاہرہ پر مسلم مظاہرہ ہونے کا الزام لگا تو اس مظاہرہ کپورے ملک کا مظاہرہ بنانے کے لیے ایک ساتھ ہون ہوا، ایک ہی اسٹیج پر سکھ بھائیوں نے گروگرونت کا پاٹھ پڑھا، عیسائی بھائیوں نے بائبل پڑھا اور مسلمانوں نے قرآن کی تلاوت کی۔
شاہین باغ مظاہرین کی حمایت میں ہون بھی کیا گیا اور مسلم خواتین نے ٹیکے بھی لگائے۔ یہ اس بات ثبوت ہے کہ اس مظاہرہ میں صرف ایک فرقہ کے لوگ نہیں بلکہ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے شاہین باغ خواتین کا مظاہرہ کا تذکرہ نہ صرف بھارت کے کونے کونے میں ہورہا ہے بلکہ پوری دنیا میں اور دنیا کی ہر یونیورسٹی میں اس کا ذکر ہورہا ہے اوران کی حمایت میں مظاہرہ کئے جارہے ہیں۔
مظاہرہ کو بدنام کرنے کے لئے کئی ٹی وی چینل کے صحافی آئے لیکن کسی وزرائے نے اسے توہین باغ قرار دیا۔ فسطائی طاقتوں نے کچھ لڑکے اور لڑکیوں کو برقعہ پہناکر بھیجا تاکہ مظاہرہ کو منتشر اور بدنام کیا جاسکے لیکن خاتون مظاہرین کو پکڑ کر بغیر کسی تکلیف کے پولیس کے حوالے کردیا گیا۔
کئی بار ہندو شدت پسند تنظیموں کے غنڈوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن خواتین کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین کی حمایت کرنے کے لئے پنجاب سے سکھوں دستہ مسلسل آتا رہا۔
آنے والوں کے سابق ورزرائے، سابق اسپیکر، سابق اراکین پارلیمنٹ و اسمبلی، سماجی کارکن اور عام لوگ تھے۔ سردار ڈی ایس بندرا لنگر چلارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک گرودا لنگر چل رہا ہے۔جس میں تین ہزار لوگ روزانہ کھانا کھاتے ہیں۔
ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ یہ سامان اور پیسہ کہاں سے آتا ہے تو انہوں نے کہاکہ یہاں کے عوام دے جاتی ہیں۔ یہاں ہندو، سکھ عیسائی، مسلم سب کچھ نہ کچھ سامان رکھ جاتے ہیں اور ان لوگوں کے تعاون لنگر مسلسل چل رہا ہے۔
دو ماہ کے شاہین باغ خواتین مظاہرہ میں تعلیم یافتہ خواتین کے ساتھ پڑھی ان پڑھ خواتین بھی حصہ لے رہی ہیں۔ 20دن کے بچہ سے لیکر 90 سالہ خواتین بھی شریک ہیں۔ سب کا کہنا ہے کہ ہم آئین کو بچانے کے لئے آئے ہیں۔
جوں جوں رات جوان ہوتی ہیں خواتین اور دیگر مظاہرین کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ پوری دہلی ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ آرہے ہیں اور شاہین باغ خواتین کے جذبے کو سلام کرنے کے ساتھ ان کی حمایت کر رہے ہیں۔
سکھ سماج کے ساتھ دلت سماج کی خواتین اور مرد بھی جوش و خروش کے ساتھ اس مظاہرے میں حصہ لے رہی ہیں۔ آٹھوں ریاستوں کی خواتین ایک وفد کی شکل میں آئیں۔ان خاتون مظاہرین نے کہا کہ بات صرف مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ اس ملک کے اتحاد و سالمیت کی ہے جسے ہم کسی قیمت پر نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت آتی جاتی رہتی ہے لیکن یہ ملک ہمیشہ رہے گا اور ہم اس ملک کی مشترکہ تہذیب اور ساجھی وارثت کو کسی صورت میں بھی ختم نہیں ہونے دیں گے کیوںکہ اس حکومت کا یہی منشا ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ قانون صرف مسلمانوں کو پریشان کرے گا وہ اپنی غلط فہمی دور کرلیں۔
خاتون مظاہرین میں شامل ایک ہند وخاتون رینو کوشک نے کہا کہ سوشل میڈیا پر شاہین باغ خاتون مظاہرین کی بات دیکھ کر مظاہرہ میں شامل ہوئی ہوں اور میں ان خواتین کے ساتھ رات میں بھی یہیں رہتی ہوں۔