چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس سنجیو کھنہ کی بینچ نے عرضی گزاروں جے بھگوان گوئل اور پرکاش تیاگی کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ کسی کمپنی میں گاندھی کو محض برطانوی شہری بتانے سے انہیں برطانوی شہری نہیں مانا جا سکتا۔
جسٹس گگوئی نے سوالیہ انداز میں کہا کہ 'کچھ اخبارات انہیں برطانوی شہری قرار دیتے ہیں تو کیا اس سے وہ برطانوی شہری ہو گئے۔کسی کمپنی نے راہل گاندھی کو برطانوی شہری بتایا ہے تو کیا وہ برطانوی شہری ہو گئے ۔عرضی خارج کی جاتی ہے۔'
قبل ازیں عرضی گزاروں نے دلیل دی کہ گاندھی ملک کے وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار ہیں۔ اس پر جسٹس گگوئی نے تقریباً تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ ایک ارب آبادی والا ملک ہے۔ ہر شہری وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔ اگر آپ کو موقع ملے گا تو کیا آپ وزیراعظم بننا نہیں چاہیں گے۔'
عرضی گزاروں کا کہنا تھا کہ 'کانگریس کے صدر نے اپنی مرضی سے برطانوی شہریت حاصل کی ہے اس لیے انہیں انتخابات لڑنے اور رکن پارلیمان بننے سے روکا جائے۔'
عرضی میں کہا گیا تھا کہ یہ واضح ہے کہ گاندھی نے برطانوی شہریت حاصل کی ہے۔ یہ معاملہ تب سامنے آیا جب برطانیہ کی بیک آپس نامی کمپنی نے اپنا انکم ٹیکس ریٹرن داخل کیا۔
عرضی میں کہا گیا تھا کہ گاندھی حلف نامہ دیں کہ وہ بھارتی شہری نہیں ہیں اور وہ عوامی نمائندگی کے قانون 1951کے پرویژن کے مطابق انتخاب لڑنے سے قاصر ہیں۔
عدالت میں یہ عرضی اس وقت داخل کی گئی تھی، جب گذشتہ 30 اپریل کو مرکزی وزارت داخلہ نے گاندھی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 15 روز میں جواب دینے کے لیے کہا تھا۔ یہ نوٹس انہیں بی جے پی کے رہنما سبرامنیم سوامی کی شکایت کی بنیاد پر بھیجا گیا ہے۔ سوامی کا الزام ہے کہ راہل کے پاس برطانوی شہریت ہے۔
عرضی میں کہا گیا تھا کہ راہل گاندھی نے برطانیہ کی شہریت لے رکھی ہے، اس لیے وزرات داخلہ جلد از جلد اس پر کارروائی کرے اور ان کا نام ووٹر لسٹ سے خارج کر دے۔
اس سے قبل مرکزی وزارت داخلہ نے راہل گاندھی کی شہریت کے معاملے پر ان کو نوٹس جاری کرکے دو ہفتے کے اندر حقائق کے ساتھ وضاحت کا مطالبہ کیا تھا۔