طلاق کا مسنون طریقہ اپنانے کا مشورہ
قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین اور لا کمیشن آف انڈیا کے رکن پروفیسر طاہر محمود نے واضح کیا ہے کہ پارلیمنٹ سے طلاق ثلاثہ کے خلاف جو بل پاس ہوا ہے وہ اصول قانون کے اعتبار سے ناقص اور غیر منطقی تو ہے لیکن طلاق کے صحیح اسلامی طریقے اس سے بالکل متأثر نہیں ہوتے ہیں۔
پروفیسر محمود نے جو اسلامی قانون پر متعدّد کتابوں کے مصنّف ہیں اور جنکے حوالے اکثر عدالتی فیصلوں میں دئیے جاتے ہیں، متنازعہ طلاق بل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بل کی دفعہ 2(c) میں لفظ ”طلاق“ کی جو تعریف دی گئی ہے وہ اس پورے بل کو صرف طلاق بدعت تک محدود کرتی ہے، طلاق احسن اور طلاق حسن سمیت طلاق کے مسنون طریقے اس بل کی کسی شق کی زد میں قطعاً نہیں آتے ۔
پروفیسر محمود نے مزید کہا ہے کہ اصولاً وہ اس بل کی حمایت نہیں کرتے ہیں لیکن اب جبکہ یہ باقاعدہ قانون بن ہی گیا ہے تو اسکے خلاف واویلا کرنے کے بجائے اس کی سختیوں سے محفوظ رہنے کیلئے اوّل تو طلاق دینے سے ہی جہاں تک ممکن ہوپرہیز کیا جانا چا ہیئے اور اگر بفرض محال اس کی نوبت آہی جائے تو صحیح اسلامی قانون کے واقف کاروں سے مشورہ کرکے طلاق کا مستند اور مسنون طریقہ ہی استعمال کیا جانا لازمی ہے۔ اس صورت میں طلاق ثلاثہ کے نئے قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں پروفیسر محمود نے یہ بھی واضح کیا کہ خلع یعنی بیوی کے مطالبے پر طلاق اور مبارأت یعنی فریقین کی باہم رضامندی سے طلاق بھی طلاق ثلاثہ بل کے اطلاق کی حدود سے پوری طرح باہر ہیں۔