قومی دارالحکومت دہلی میں عدالتی کام کاج اور محکمہ پولیس کی کارروائی میں استعمال ہونے والی زبان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اس کے پیچھے کیا منشا ہوسکتی ہے یہ اندازہ لگانا لگایا جا سکتا ہے۔
معروف دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی پروفیسر ڈاکٹر نجمہ رحمانی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ مشکل الفاظ کی جگہ عام فہم زبان کا استعمال کیا جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن اگر ایک زبان کو ہی نشانہ بنایا جارہا ہے تو وہ سرا سر غلط ہے۔
وہیں دوسری جانب دہلی یونیورسٹی کے شعبہ فارسی میں ایسوسی ایٹ ریسرچر مسرت فاطمہ کا کہنا ہے کہ کہاں تک ہٹائیں گے، کیوں کہ لفظ ہندوستان بھی فارسی ہے لفظ ہندی بھی فارسی ہے صبح فارسی ہے شام فارسی ہے اگر ہٹانا ہے تو پھر فلموں سے بھی اس زبان ہٹا کر دکھائیں۔
جبکہ سپریم کورٹ کے وکیل جمال اختر کا کہنا ہے کہ پولیس اور عوام کے درمیان کچھ تو پردہ داری ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ وکیلوں کو خصوصی ٹریننگ کی بھی َضرورت نہیں ہے تاہم جب ایک آئی پی ایس آفیسر آتا ہے تو اسے اردو فارسی کے الفاظ سکھائے جاتے ہیں، اور وکیل اپنے سینیئر وکلا کے درمیان رہ کر وہ سب سیکھ جاتا ہے۔