پیاز کے لیے مشہور مہاراشٹرا کے شولاپور اور سنگانیر مارکٹ میں پیاز کی قیمت 110 روپئے تک پہنچ گئی جبکہ جنوبی ہند کےکوئمبٹور میں پیاز کی قیمت 130 روپئے بتائی گئی۔
نیشنل ہارٹیکلچر بورڈ نے بھی پیاز کی قیمتوں میں بےتحاشہ اضافہ کو مانا ہے تاہم بورڈ نے ملک کے متعدد بڑے شہروں میں پیاز کی قیمت 80 روپئے فی کیلو ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسی طرح حیدرآباد، ناگپور، بھوپال وغیرہ میں پیاز کی قیمت میں لگاتار اضافہ کی وجہ سے لوگوں پر مالی بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔
مہاراشٹرا، کرناٹک، مدھیہ پردیش، گجرات، راجستھان، اترپردیش اور بہار میں شدید اور غیرموسمی بارش کی وجہ سے پیاز کی فصل کو کافی نقصان ہوا ہے جس کی وجہ سے پیاز کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر پیاز کی پیداوار میں چین کو پہلا مقام حاصل ہے جبکہ بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔
مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے تین ہفتوں کے اندر پیاز کی قیمتوں میں کمی آنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ممالک سے پیاز کو درآمد کیا جارہا ہے اور بہت جلد پیاز کی قیمتوں میں کمی آجائے گی۔
ریاستوں نے مرکز سے سبسڈی والی پیاز کی قیمتوں کمی کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اس کا صارفین کو کتنا فائدہ ہوگا اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکا ہے اور پیاز کی قیمتوں میں بار بار بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہے جس سے صارفین کو مشکلات کا پیش آتی ہیں۔
مرکز نے 2 سال قبل کھلے عام اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ پیاز کی قیمتوں میں فوری طور پر کمی کرنا اس کے بس میں نہیں ہے۔ اس سال اوائل میں مرکز نے تمام ریاستوں کو ستمبر کے آخر تک مناسب مقدار میں پیاز کی سپلائی کا تیقن دیا تھا لیکن زیادہ مانگ کی وجہ سے وعدہ کو پورا کرنے سے مرکز قاصر رہا۔
گذشتہ دو ماہ کے دوران پیاز کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ قیمتوں میں کمی لانے کےلیے حکومت کسی بھی اقدام سے قاصر دکھائی دے رہی ہے جبکہ حکومت نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے پہلے ہی برآمدات پر دی جانے والی سبسیڈی کو برخواست کردیا تھا۔
اس سلسلہ میں حکومت نے احکامات جاری کرتے ہوئے ریٹیلر کو زیادہ سے زیادہ 100 کنٹل اور ہول سیلر کو 500 کنٹل پیاز کا ذخیرہ کرنے کی اجازت دی ہے جبکہ مصر سے پیاز کو درآمد کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔
ملک میں مختلف ریاستی حکومتوں کی جانب سے اپنے طور پر سبسڈی کرتے ہوئے پیاز کو فروخت کیا جارہا ہے جبکہ صارفین میں قیمتیں کم ہونے کو لیکر الجھن پائی جارہی ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ مختلف فصلوں کی بیرون ممالک برآمدات کےلیے بہترانداز میں جائزہ لیں تاہم طویل مدتی منصوبہ بندی اور ضوابط کے موثر نفاظ کے بعد ہی اس طرح کے حالات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
وہیں دوسری جانب کریشی وگنان کیندر، زرعی یونیورسٹیز کے علاوہ حکومتی اداروں کو کاشتکاری میں ٹکنالوجی استعمال کرتے ہوئے پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کےلیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسے اقدامات کے ذریعہ ہی ہم صارفین کے آنسوؤں کو پونچھ سکتے ہیں۔