اردو

urdu

By

Published : Sep 5, 2019, 1:29 PM IST

Updated : Sep 29, 2019, 12:50 PM IST

ETV Bharat / state

کشمیر: میڈیا پر بندشوں کا معاملہ، اگلی سماعت 16 ستمبر کو

کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین کی عرضی پرسماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے سپریم کورٹ سے کہا کہ وادیٔ کشمیر میں ہر روز متعدد اخبارات شائع ہورہے ہیں۔

کشمیر: میڈیا پر بندشوں کا معاملہ، اگلی سماعت 16 ستمبر کو

تشار مہتا نے سپریم کورٹ میں کہا کہ کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹرز نے خود اپنے اخبار کو شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ میں جموں و کشمیر میں میڈیا کی آزادی پر بندشوں کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کرکے سات دنوں میں جواب دینے کو کہا تھا۔

واضح رہے کہ 27 اگست کو انورادھا بھسین نے انٹرنیٹ، موبائل فون خدمات اور مواصلاتی نظام پر پابندی کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔

انورادھا بھسین نے سپریم کورٹ میں کہا کہ' یہ معاملہ میڈیا کی آزادی کا ہے ۔ کشمیر میں مسلسل ایک ماہ سے بندشوں اور قدغنوں کا سلسلہ جاری ہے اور مواصلاتی نظام ٹھپ ہے۔وہاں پر صحافیوں پر اب تک پابندیاں عائد ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے فرائض انجام نہیں دے پارہے ہیں'

مواصلاتی نظام ٹھپ رہنے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافی اپنے اداروں تک بروقت اپنی خبریں یا رپورٹ پہنچانے سے قاصر ہیں۔

اٹارنی جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت سے کہا کہ انورادھا بھسین کااستدلال حقیقت میں غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ سرینگر اور جموں میں کئی اخبارات شائع ہو رہے ہیں اور کشمیر ٹائمز کے مدیران نے ازخود ہی اخبار شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے انورادھا بھسین کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کوئی بھی حکم جاری کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس معاملے میں اگلی سماعت 16 ستمبر کو ہوگی۔

کشمیر ٹائمز ریاست کے اولین انگریزی اخبارات میں سے ایک ہے اور بیک وقت جموں اور سرینگر سے شائع ہوتا ہے۔

انورادھا بھسین کی سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنے کے بعد پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین نے سپریم کورٹ میں اس کیس کے حوالے سے ایک متنازع بیان حلفی دائر کیا تھا جس میں قومی مفادات کے پیش نظر میڈیا پر عائد کی گئی پابندیوں کو قابل جواز قرار دیا گیا تھا۔ اس پر ملک کے کئی سینئر اور قابل اعتماد صحافی سیخ پا ہوگئے چنانچہ روزنامہ ہندو کے سابق چیف ایڈیٹر این رام نے پریس کونسل کے اس اقدام کی سخت مخالفت کی اور ڈسٹوپیا (ایک انتہائی خراب سماجی نظام) قرار دیا۔

Last Updated : Sep 29, 2019, 12:50 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details