یہ اعلان 'باشعور ہندستانی شہریوں کے درمیان مباحثہ' کے عنوان سے ایک اہم اور فیصلہ کن پروگرام میں کیا گیا۔
عوام سے این پی آر کی مکمل بائیکاٹ کی اپیل جمعیتہ علمأ ہند کی جاری ریلیز کے مطابق سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے سلسلے میں آج جمیت علماء ہند کے صدر دفتر ایک پروگرام منعقد کیا گیا جس میں سبھی مذاہب سے تعلق رکھنے والے ملک کے دانشور، سماجی قائدین، دلت رہنما اور سبھی مسلم جماعتوں کے عہدیداران شریک ہوئے۔
پروگرام کی صدارت جمعیتہ علما ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری نے کی۔ اس پروگرام کے کنوینر جمعیتہ علما ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی اور جوائنٹ کنوینر کمال فاروقی تھے۔
عوام سے این پی آر کی مکمل بائیکاٹ کی اپیل میٹنگ میں تقریبا چار گھنٹے کے طویل مذاکرے اور مختلف قانونی معاملات پر غوروخوض کے بعد ایک متفقہ اعلامیہ منظور کیا گیا جسے 'دہلی اعلامیہ' کا نام دیا گیا ہے۔
اس اعلامیہ میں واضح طور سے جلد ہونے والے این پی آر کو مسترد کرنے کا اعلان کیا گیا اور عوام سے کہا گیا کہ این پی آر یکم اپریل سے 30 ستمبر 2020 تک ہوگا۔ ڈیٹا اکٹھا کرنے والے گھر گھر جائیں گے، عوام کو شائستگی کے ساتھ ان سے تعاون کرنے سے انکار کرنا چاہئے اور انھیں کسی طرح کی تفصیلات فراہم نہیں کرنی چاہیے۔
واضح رہے کہ مباحثہ میں ایک ڈرافٹنگ کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جس کے صدر سابق مرکزی وزیر کے رحمان خاں تھے، اس کمیٹی میں مشہور تجزیہ نگار ابوصالح شریف، عیسائی رہنما جان دیال، انل چمڑیا، ایم ایم انصاری، قاسم رسو ل الیاس، دھنراج ونجاری اور اویس سلطان خاں شامل تھے۔
عوام سے این پی آر کی مکمل بائیکاٹ کی اپیل کمیٹی نے قانونی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا اور پھر متفقہ طور سے سات نکاتی اعلامیہ منظور کیا ہے جس کا اردو متن حسب ذیل ہے:
(۱) ہم واضح طور پر این پی آر کو مسترد کرتے ہیں کیوں کہ یہ ملک کے آئین کی دفعہ (14) سے کھلے طور پر متصادم ہے۔
این آرسی کی تیار ی کے لیے، این پی آر کا عمل ڈیٹا جمع کرنے کا پہلا مرحلہ ہے جیساکہ شہریت ایکٹ 1955اور شہریت رولز سنہ 2003 سے ظاہر ہوتا ہے۔
یہ عمل واضح طور پر تفرقہ پر مبنی، امتیازی، علیحدہ پسند اور غیر دستوری ہے جس میں ایک مخصوص طبقے کو ذات پات، طبقہ اورصنف کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
(۲) این پی آر یکم اپریل سے 30 ستمبر 2020 تک ہوگا۔ ڈیٹا اکٹھا کرنے والے گھر گھر جائیں گے۔ عوام کو شائستگی کے ساتھ ان سے تعاون کرنے سے انکار کرنا چاہئے اور انھیں کسی طرح کی تفصیلات فراہم نہیں کرنی چاہیے۔
(۳) ہم تمام ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر این پی آر کے عمل کو معطل کردیں۔ ہم تمام امن وامان نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ پرامن مظاہرے کے سلسلے میں ہندستانی عوام کے آئینی حقوق کا احترام کریں۔
(۴) ہم بالخصوص اترپردیش سمیت مختلف ریاستوں کے پرامن مظاہرین کی پولس فائرنگ میں نشان بند ہلاکتوں کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ حکومت پرامن اختلاف رائے رکھنے والوں پر ریاستی جبر کی لیبارٹری بن چکی ہے۔ ہم پولیس کی فائرنگ، املاک کو پہنچنے والے نقصان، بے گناہ لوگوں کی گرفتاری اور سول مظاہرین پر غیر معمولی جرمانے عائد کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔
(۵) ہم ملک بھر میں سبھی مذاہب کے نوجوانوں، طلباء اور شاہین باغ کی خواتین کی طرف سے ہونے والے پرامن احتجاج کو سلام پیش کرتے ہیں۔
(۶) ہم بغاوت اور اس جیسے سخت قوانین کے تحت اندھا دھند گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم گرفتار شدگان کی فوری غیر مشروط رہائی اور ان کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک بھر میں ادارہ جاتی املاک اور لوگوں کو ہونے والے جسمانی اور مادی نقصانات اور نفسیاتی تناؤ کے لئے مناسب معاوضہ دیا جائے۔
(۷) ہم لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہر وقت امن قائم رکھیں اور تحریک کو سبوتاژ کرنے والی اشتعال انگیزی اور پروپیگنڈاکا شکار نہ ہوں۔ جئے ہند
میٹنگ کے اختتام پر جمعیتہ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے کہا کہ جنوری کے پہلے ہفتہ میں جمعیتہ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے سی اے اے کے خلاف ایک تجویز منظورکی تھی، اس موقع پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس موضوع پر ملک کے دانشوروں کا ایک اجتماع طلب کیا جائے، چنانچہ اس کے تحت یہ پروگرام ہواہے۔
انھوں نے کہا کہ اس میٹنگ میں جمعیتہ کی دعوت پر زیادہ تر غیر مسلم دانشوروں اور بڑے نامور تجزیہ نگاروں نے شرکت کی ہے، جمعیتہ کی جانب سے ان کی شرکت اور ان کی مفید آراء کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے، انھوں نے آج این پی آر کو لے کر واضح راہ دکھائی ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سرکار عوام کے دلی جذبات کو سمجھے گی۔