جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہلی فساد میں مسلمانوں کی جان ومال کی زبردست تباہی ہوئی ہے ،فساد کے دوران مسلم اداروں کو تباہ و برباد کیا گیا اور حکومت کی طرف سے خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی، نہ ہی بر وقت فساد کو روکنے کے لیے کوششیں کی گئیں اور نہ ہی ان رہنماؤں پر کارروائی ہوئی جنہوں نے اشتعال انگیز بیان دیا تھا، جس کی وجہ سے انتظامیہ پر سے عوام کا بھروسہ کم ہوا ہے۔
امیر جماعت کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی سطح پر کچھ مثبت خبریں ملیں کہ کئی معاملوں میں ہندو اور مسلم طبقہ کے لوگوں نے ایک دوسرے کی جان بچائی، لیکن باہری فسادیوں کی وجہ سے یہ لوگ بڑی تباہی کو روکنے سے قاصر رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہمارا ملک جمہوری ہے اور یہاں احتجاج کا حق سب کو ہے، احتجاج حکومت کے خلاف ہورہا تھا، لہٰذا حکومت کو ہی اس سلسلے میں کوئی پیش قدمی کرنی چاہئےکسی عام آدمی کو یہ حق نہیں ہے کہ احتجاج روکنے کے لیے تشدد کی راہ اختیار کرے'۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں تک روڈ جام کرنے کی بات ہے تو اس پر حکومت کو غور کرنا چاہئے اور اپنا نمائندہ بھیج کر ان لوگوں سے بات کرنی چاہئے، فسادات کو روڈ جام سے جوڑ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔
ایک سوال کے جواب میں امیر جماعت نے کہا کہ یقینا فساد کرنے والے باہری شر پسند عناصر ہی تھے،البتہ انہیں مقامی طور پر کچھ مدد دی جارہی ہوگی اور ان کی مدد سے ہی وہ مسلمانوں کی شناخت کرکے انھیں نقصان پہنچا رہے تھے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ فساد کی تحقیقات ایس آئی ٹی کے سپرد کی گئی ہے، کیا وہ ایس آئی ٹی پر بھروسہ کرتے ہیں؟
اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھروسہ کرنا ایک الگ چیز ہے لیکن ابھی صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ صرف ایس آئی ٹی کافی نہیں ہے، کیونکہ ویڈیوز دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس معاملے میں پولیس کا رویہ جانبداری پر مبنی ہے۔ لہٰذا مناسب ہے کہ تحقیقات کے لیے عدالتی انکوائری کی تشکیل کی جائے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا شاہین باغ کا احتجاج جاری رہنا چاہیے؟