دہلی کی راؤز ایونیو عدالت آج پریا رمانی کے خلاف سابق وزیر ایم جے اکبرکے ذریعہ داخل کی گئی ہتک عزت معاملے میں سماعت کرے گی۔ گزشتہ 22 اکتوبر کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سجاتا کوہلی نے اس معاملے کو ایڈیشنل چیف میٹروپولیٹین مجسٹریٹ وشال پاہوجا کی عدالت میں سماعت کے لیے واپس بھیج دیا تھا۔
13 اکتوبر کو ایڈیشنل چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ وشال پاہوجا نے کہا تھا کہ ان کی عدالت صرف رکن پارلیمان اور رکن اسمبلی سے متعلق معاملے کی ہی سماعت کرسکتی ہے، اس لیے اس معاملے کو دوسری عدالت میں منتقل کیا جائے۔ اس کے بعد اس معاملے کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سجاتا کوہلی کے پاس فیصلہ سنانے کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں ایم جے اکبر کی جانب سے ابھی دلائل پیش کیے جانے باقی ہیں۔ پریا رمانی کی جانب سے وکیل ریبیکو جان نے اپنی دلائل مکمل کرلی ہیں۔
19 ستمبر کو ریبیکو جان نے کہا تھا کہ جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی ضروی ہے اور پریا رمانی اس کا چھوٹا سا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایم جے اکبر کی طرف سے یہ کہا جانا صحیح نہیں ہے کہ پریا رمانی کے ٹویٹ سے بدنامی ہوئی ہے، اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ تعزیرات ہند کی دفعہ 499 اور 500 کی دفعات کے تحت ہتک عزت نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایم جے اکبر کی وکیل گیتا لتھورا نے جن فیصلوں کا حوالہ دیا ہے، ان کا تعلق سول ہتک عزت سے ہے نہ کہ مجرمانہ ہتک عزت سے۔
ریبیکو جان نے کہا تھا کہ ایم جے اکبر کا کہنا ہے کہ پریا رمانی نے 20 سال تک کچھ نہیں کہا۔ 'می ٹو تحریک' نے پریا رمانی کو ایک محفوظ پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ غزالہ وہاب نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایشین ایج میں جنسی ہراسانی پر کارروائی کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں تھا۔ وشاکھا گائیڈلائن تو 1997 میں آیا۔ پریا رمانی نے اپنی خاموشی اختیار کرنے کی وجہ کو واضح طور سے بیان کیا ہے، اس پر عدالت غور کرسکتی ہے۔
ریبیکو جان نے کہا تھا کہ ایم جے اکبر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ بہت محنت کرتے تھے اور ان کی شبیہہ کو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی۔انہوں نے کہا کہ محنت کرنا صرف ایم جے اکبر کا اکیلا کام نہیں تھا۔ ایم جے اکبر سے ملنے سے پہلے پریا رمانی ایک صحافی کے طور پر ایم جے اکبر کی تعریف کرتی تھیں، لیکن ان کا رمانی اور دوسری خواتین کے ساتھ سلوک برا تھا۔ ریبیکو جان نے کہا تھا کہ پریا رمانی کے خلاف مجرمانہ ہتک عزت کا معاملہ نہیں بنتا ہے۔
واضح رہے کہ ایم جے اکبر نے 15 اکتوبر 2018 کو پریا رمانی کے خلاف فوجداری ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا۔ پریا رمانی کی جانب سے جنسی ہراسانی کا الزام لگانے کے بعد انہوں نے فوجداری ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ 18 اکتوبر 2018 کو ، عدالت نے ایم جے اکبر کی اس عرضی کو نوٹس میں لیا ۔25 فروری 2019 کو عدالت نے ہتک عزت معاملے میں صحافی پریا رمانی کی ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے پریا رمانی کو دس ہزار روپے کے ذاتی مچلکے پر ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے 10 اپریل 2019 کو پریا رمانی کے خلاف الزامات عائد کیے تھے۔ عدالت نے پریا رمانی کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کے لئے مستقل چھوٹ دے دی۔