کانگریس کے ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا 'ریاستی یونٹ میں آپسی اختلافات ہیں۔ بزرگ و نوجوان رہنماؤں کے درمیان رسہ کشی جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ کانگریس ہریانہ اور مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی سے مقابلہ نہیں کر پا رہی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'ہریانہ اور مہاراشٹر اسمبلی انتخابات ہمارے لیے ایک اچھا موقع ہے کہ ہم 2019 کے لوک سبھا انتخابات کی ہار کے اثرات سے خود کو نکال سکیں۔'
پارٹی کے متعدد رہنما جو یکساں نظریات رکھتے تھے، نے ہریانہ یونٹ کے سابق سربراہ اشوک تنور کے حالیہ استعفے کی طرف اشارہ کیا، جنہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔ جب وہ انتخابات میں سابق وزیراعلی بھوپیندر سنگھ ہڈا کی وجہ سے حاشیے پر چلے گئے۔'
اعلیٰ ذات کے جاٹ رہنما بھوپیندر سنگھ ہڈا نے وزیراعلی منوہر لال کھٹر کے خلاف انتخابی مہم کی قیادت کی تھی۔
اگرچہ موجودہ ہریانہ یونٹ کی سربراہ کماری شیلجا ایک دلت رہنما ہیں اور ہڈا نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متحدہ طور پر کچھ پیش رفت کی ہیں لیکن دونوں میں گذشتہ دہائیوں سے تنازع بھی ہے۔'
کانگریس کی سیاسی حکمت عملی تیار کرنے والے رہنما نے کہا کہ 'کانگریس کے لیے ہڈا ایک بہترین چہرہ تھے کیونکہ وہ اب بھی جاٹ سماج کے بااثر رہنما ہیں۔ جاٹ برادری کے کُل ووٹرز 25 فیصد ہیں جو بی جے پی کے لیے ایک بڑا چیلینج ہیں۔'
مہاراشٹر میں کانگریس کے رکن پارلیمان کی تعداد گھٹ گئی ہے جس سے پارٹی قیادت پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم امید کرتے ہیں کہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے کانگریس ریاست بھر میں اپنی پارٹی کو وسعت دینے میں کامیاب ہوگی۔'
ہریانہ میں بھی کانگریس 10 لوک سبھا نشستوں کا مقابلہ نہیں جیت سکی۔ ہڈا کے بیٹے دیپندر ہڈا بھی اپنی روہتک کی سیٹ نہیں بچا سکے۔
تنور اور نیروپم کے علاوہ جنہوں نے آنے والے اسمبلی انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم میں بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا، وہ راہل گاندھی کے مقرر کردہ رہنما تھے جنہیں تریپورہ یونٹ کے سابق سربراہ پردیوت مانیکیا اور جھارکھنڈ یونٹ کے سابق سربراہ اجوئے کمار کے جیسی صورتحال سے دو چار ہونا پڑا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کے پس پشت پارٹی کے تجربہ کار سیاستدانوں کا ہاتھ ہے جو راہل کے استعفیٰ کے بعد سونیا گاندھی کو عبوری سربراہ بنائے جانے کے بعد سرگرم ہوئے ہیں۔
کانگریس کے اندرونی ذرائع کے مطابق سرپرستی کے کلچر اور سابق تجربہ کار سیاستدانوں کے معاملات میں شفافیت کی کمی کی وجہ سے راہل گاندھی پریشان تھے۔ راہل گاندھی چاہتے تھے کہ اس پُرانی پارٹی کے کام کرنے کے طریقے میں تبدیلی ہو لیکن انہیں اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع نے ایک معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ '2019 کے قومی انتخابات میں ہار کے فورا بعد ہی راہل نے کانگریس کے سربراہ کے عہدے سے اس امید کے ساتھ استعفی دینے کی پیش کش کی تھی کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی میں تجربہ کار تنظیم میں بنیادی تبدیلیوں کی راہ ہموار کریں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا'۔