غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گلزار دہلوی ایک زندہ دل شخصیت کے مالک تھے ان سے مل کر ہمیشہ حوصلہ ملتا تھا۔
بھارت کی گنگا جمنی تہذیب کے نمائندہ شاعر آنند موہن زتشی گلزار دہلوی کے انتقال سے پوری اردو دنیا صدمے میں ہے۔ انھوں نے دہلوی تہذیب کے مٹتے نقوش کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا جو ان کی شخصیت اور شاعری میں یکساں ظاہر ہوئے ہیں۔
غالب انسٹی ٹیوٹ سے ان کا جتنا پرانا اور گہرا تعلق تھا میرا خیال ہے کہ بھارت کے کسی دوسرے ادارے سے اتنا قدیم اور گہرا تعلق نہیں رہا ادارے کے قیام کے وقت سے اب تک وہ ہم سے وابستہ رہے یہاں کے مشاعروں میں پابندی سے شریک ہوتے تھے اور کئی مرتبہ بین الاقوامی مشاعرے کی صدارت بھی فرمائی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ نے انھیں غالب انعام برائے شاعری بھی پیش کیا۔ ادھر اردو ادب کئی ممتاز شخصیات کی سرپرستی سے محروم ہوگیا ایسے میں گلزار دہلوی کا گزر جانا بڑی تنہائی کا احساس کراتا ہے۔ خدا وند کریم سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر عطا کرے۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر سید رضا حیدر نے کہا کہ گلزار دہلوی مجاہد آزادی کے ساتھ مجاہد اردو بھی تھے۔ انھوں نے ساری عمر اردو کی خدمت کی اور اس کی سربلندی کے لیے کوشاں رہے۔ ان کے تلفظ کی درستی، فارسی ادب پر قدرت اور ہندی و سنسکرت کی شعریات سے واقفیت نے صحیح معنوں میں بھارتی تہذیب کا نمائندہ بنا دیا تھا۔
ادبی محفلوں میں دوران گفتگو فارسی اور سنسکرت کے اشعار بڑی روانی سے پڑھتے تھے۔ ان کی شاعری میں ہندستانی معاشرت کی خوبصورت تصویر کشی ملتی ہے۔ اپنے زندہ دل انداز تکلم کی اور دلاویز شخصیت کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہماری یا دوں میں آباد رہیں گے۔ گزشتہ چند دنوں سے اردو ادب پئے در پئے صدمات کا نشانا رہا، میری خدا سے دعا ہے کہ پورے عام انسانیت اور اردو معاشرے کے لیے مزید بری خبر نہ آئے۔ خدا وند کریم گلزار دہلوی کے درجات بلند فرمائے۔ میں اپنی جانب سے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ٹرسٹیز اور پورے عملے کی جانب سے گلزار دہلوی کے پسماندگان کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں اور انھیں یقین دلاتا ہوں کہ ادارہ ان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔
اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے گلزار دہلوی کے انتقال پر گہری تعزیت کا اظہار کرتے ہوے کہاکہ اس کے ساتھ ہی انجمن تعمیر اردو کی سرگرمیاں، روزہ رواداری کی روایت بھی ختم ہوگئی وہ ایک شاعر کے فرزند تھے ان کے بھائی خار دہلوی بھی شاعر تھے۔ ایسے خاندان میں گلزار دہلوی بچپن سے شعر کہنے لگے تھے۔وہ داغ دہلوی سے اپنا سلسلہ قائم کرتے اور جس طرح سے داغ اسکول کے تسلسل کو بیان کرتے تھے ایسا لگتا تھا جیسے وہ شجرہ خوانی کر رہے ہوں دہلی کے ایک ایک ذرہ سے انہیں پیار تھا زبان و بیان پر انہیں قدرت حاصل تھی ان کی تقریر سننے والا مسحور ہو جاتا تھا۔ جلد ہی دہلی کی محفلوں میں شرکت کرنے لگے اور رونق محفل بن گئے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی مرصع غزلیں اور رباعیات میں وہ کھل کر اپنے افکار کا اظہار کرتے تھے۔وہ اردو کے عاشق اور مشترکہ تہذیب کے امین تھے۔ سائنس کی دنیا سے سبکدش وشی کے بعد وہ کثرت سے دہلی،بیرون دہلی اور غیر ملکی مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ پوری دنیا میں انھیں مشترکہ تہذیب کا نمائندہ شاعر تسلیم کیا جانے لگا اس سلسلے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
پرانی دہلی میں جہاں وہ پیدا ہوئے رام لیلا پابندی سے کرتے تھے۔ اور حضرت نظام الدین اور حضرت امیر خسرو کے عرس کے موقعے پر ہونے والے طرحی مشاعرے کے انعقاد میں بھی حصہ لیتے تھے۔ عرس کے موقعے پر وہ تین روز تک حضرت نظام الدین میں ہی قیام فرماتے تھے۔ وہ دہلی کی تمام ادبی وثقافتی انجمنوں سے وابستہ تھے۔ انجمن ترقی اردو دلی شاخ کے زیر اہتمام مزار غالب پر ہونے والے مشاعرے میں پابندی سے شرکت کرتے تھے۔ غالب اکیڈمی کی شعری محفلوں میں بھی برابر شریک ہوتے تھے۔ اردو دنیا ان کو ہمیشہ یاد کرتی رہے گی۔
انجمن ترقی اردو ہند نے گلزار کے انتقال پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 12جون 2020کو ڈھائی بجے اردو کے مشہورومعروف بزرگ شاعر گلزار دہلوی اس دنیا سے رخصت ہو گئے ان کے جانے سے اردو دنیا نے بہت کچھ کھو دیا۔ سائنس کی دنیا کے بانی مدیر تھے۔ ان کے والد بھائی سب شاعر تھے۔ استاد داغ سے وہ جو اپنا رشتہ بیان کرتے تھے وہ سن کر مجمع محو حیرت ہو جایا کرتا تھا۔ کمال کا حافظہ کمال کی روانی بلا کی بلاغت ڈیڑھ سو سال کی شعری و تہذیبی روایت کی پوری عکاسی کر دیا کرتے تھے۔ ان کی موجودگی ادبی محفلوں کی رونق ہوا کرتی تھی۔
انجمن تعمیر اردو کے ذریعے انھوں نے دہلی میں ارو کی جو خدمت کی ہے اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی کمی اردو کی تمام محفلوں میں محسوس کی جائے گی۔ دہلی کی ثقافتی زندگی میں بھی ان کو شدت سے یاد کیا جائیگا۔ چاہے حضرت امیر خسرو یا حضرت نظام الدین اولیا کا عرس ہو یا پرانی دہلی میں رام لیلا تقریبات ہوں گلزار دہلوی ان کا حصہ ہی نہیں بلکہ منتظمین میں ہوا کرتے تھے۔ افسوس اب دہلی میں گلزار دہلوی جیسی کوئی نہیں ہے ان کی کمی پوری ہو ہی نہیں سکتی۔ ان کے جانے سے ایک شعری روایت کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔